کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 139
غیب کا علم نہیں تھا، اور خود سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم کے واقعات بھی اس پر دلالت کرتے ہیں۔ مثلاً ستر قراء کی شہادت کا واقعہ اور حادثہ عرنبین وغیرہ۔ ان تمام واقعات و جزئیات پر ذرا سا غور کر لینے سے یہ بات واضح اور عیاں ہو جاتی ہے کہ علم غیب فقط اللہ تعالیٰ کی ذات تک ہی محدود ہے اور ا س کی اس صفت میں کوئی نبی، ولی اس کا شریک اور ساجھی نہیں۔
لیکن بریلوی قوم کو یہ اصرار ہے کہ تمام انبیائے کرام علیہم السلام اور بزرگان دین اللہ تعالیٰ کی اس صفت میں اس کے شرکاء ہیں۔ اور جو یہ عقیدہ نہیں رکھتا، وہ ان کا گستاخ ہے۔ حتیٰ کہ بریلوی حضرات نے مختلف من گھڑت واقعات سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ احمد رضا کو اپنی موت کے وقت کا پہلے ہی علم تھا۔ [1]
انبیاء و اولیاء کی شان میں غلو سے کام لینا اور ان کے لیے وہ صفات و اختیارات ثابت کرنا، جو فقط ربّ کائنات کے ساتھ ہی مخصوص ہیں، ان کا احترام نہیں بلکہ قرآن و حدیث سے صریح بغاوت ہے۔ اسی بناء پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
"اللہ تعالیٰ نے مجھے جو رتبہ عطا فرمایا ہے، میری ذات کو اس سے نہ بڑھاؤ۔ "[2]
میری ذات کے بارے میں غلو و مبالغہ سے کام نہ لو، جیسا کہ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کیا۔ "[3]
اور جب مدینہ منورہ میں کسی بچی نے ایک شعر پڑھا، جس کا مفہوم یہ تھا کہ ہمارے اندر ایسا نبی صلی اللہ علیہ و سلم موجود ہے جو آنے والے کل کے واقعات کو جانتا ہے، تو یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے فوراً ٹوکا اور اس شعر کو دوبارہ دہرانے سے منع فرمایا۔ اور ارشاد کیا کہ﴿ لَا یَعلَمْ مَا فِی غَدٍ اِلَّا اللّٰہُ﴾ ہونے والے واقعات کی خبر اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا کسی کو نہیں۔ "[4]
[1] وصایا بریلوی ص 7۔
[2] احمد،بہیقی۔
[3] مجمع الزوائد۔
[4] ابن ماجہ۔