کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 121
تھا۔ ان لوگوں نے شریعت کی مخالفت اور شیطان کی اتباع کو نجات کا ذریعہ سمجھ رکھا ہے۔ خدا سب کو ہدایت دے۔ [1] اسی طرح مصر کے مفکر و عالم دین سید رشید رضا مصری اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : اس قسم کی آیات میں کس قدر وضاحت سے بیان کر دیا گیا ہے کہ مشرکین دشوار اور کٹھن حالات میں صرف اللہ تعالیٰ کو پکارتے تھے، مگر اس دور کے نام نہاد مسلمانوں کی عقل کا ماتم کیجئے کہ وہ شدائد و مشکلات کے وقت اپنے معبود حقیقی کو چھوڑ کر اپنے معبودان بدوی، دسوقی، جیلانی، متبولی اور ابوسریع وغیرہ سے استغاثہ کرنے میں کسی قسم کی حیا محسوس نہیں کرتے۔ اور بہت سارے جبہ پوش جو درگاہوں کے مجاور بنے ہوئے ہیں اور غیر اللہ کے نام پر چڑھائے جانے والے چڑھاووں اور نذر و نیاز کی بدولت عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں، انہیں سادہ لوح افراد کو گمراہ کرتے اور دین فروشی کرتے ہوئے ذرا سی شرم بھی محسوس نہیں ہوتی۔ کہا جاتا ہے کہ کچھ افراد سمندر کے سفر میں کشتی پر سوار ہوئے۔ کچھ دور جا کر کشتی بھنور میں پھنس گئی۔ موت سامنے نظر آنے لگی تو ان میں ہر شخص اپنے اپنے پیر کو پکارنے لگا: اے بدوی، اے رفاعی،اے جیلانی۔ ان کے اندر ایک اللہ کا بندہ توحید پرست بھی تھا۔ وہ تنگ آ کر کہنے لگا اللہ ان سب کو غرق فرما، ان کے اندر کوئی بھی تجھے پہچاننے والا نہیں ! "[2] اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سیدھی راہ پر گامزن فرمائے اور شرک و بت پرستی سے محفوظ رکھے۔ آمین!
[1] نقلا عن الاویت المیتات فی عدم سماع الاموات مقدمہ ص 17۔ [2] تفسیر المنار ج 11 ص 338،339۔