کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 120
وہ لوگ اس سے خوش ہوتے ہیں (ناگہاں ) ایک تھپیڑا ہوا کا آتا ہے اور ان کے اوپر ہر طرف سے موجیں اٹھتی چلی آتی ہیں۔ اور وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ بس اب ہم گھر گئے، تو اس وقت اللہ کو اس کے ساتھ اعتقاد کو بالکل خالص کر کے پکارتے ہیں کہ اگر تو نے ہمیں اس مصیبت سے نجات دلا دی تو ہم یقیناً بڑے شکر گزاروں میں ہوں گے۔ "
یعنی دور جاہلیت کے مشرکین جب کشتی میں سوار ہوتے تھے اور ان کی کشتی گرداب میں پھنس جاتی تھی، تو خالصتاً اللہ تعالیٰ کو پکارتے تھے اور ان کی اصل فطرت ابھر آتی تھی کہ اللہ کے سوا کوئی بھی صاحب تصرف اور مالک ذی اختیار نہیں ہے۔ مگر ذرا ان لوگوں کی سوء الاعتقادی ملاحظہ فرمائیں کہ یہ سمندر میں ہوں یا خشکی کے مقام پر، ہر جگہ کبھی بہاؤ الحق اور معین الدین چشتی کا نام لے کر اور کبھی دوسرے بزرگوں کو پکار کر غیر اللہ ہی سے فریاد کرتے نظر آتے ہیں۔ خود بریلویت کے امام، خاں صاحب بریلوی لکھتے ہیں :
"جب کبھی میں نے استعانت کی، یا غوث ہی کہا۔ "[1]
ان کے عقیدے کی تردید کرتے ہوئے حنفی مفسر آلوسی رحمہ اللہ مذکورہ آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
"اس آیت سے یہ بات واضح ہو جاتی کہ مشرکین اس قسم کے کٹھن حالات میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں پکارتے تھے۔ مگر افسوس ہے ان لوگوں پر کہ مشکل وقت آنے پر غیر اللہ کا سہارا لیتے ہیں اور ان ہستیوں کو پکارتے ہیں جو نہ ان کی آواز سن سکتے ہیں، نہ جواب دے سکتے ہیں، نہ نفع کے مالک ہیں، نہ نقصان کے۔ ان میں سے کوئی خضر و الیاس کے نام کی دہائی دیتا ہے، کوئی ابوالحمیس اور عباس سے استغاثہ (کرتا) اور کوئی اپنے امام کو فریاد کے لئے پکارتا ہے۔ کسی کو اللہ تعالیٰ کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی توفیق نہیں ہوتی۔
مجھے بتائیے کہ ان دونوں طریقوں میں سے کون ہدایت کے قریب ہے؟ اور کون ضلالت اور گمراہی کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے؟یقیناً مشرکین مکہ کا عقیدہ ان سے بہتر
[1] ملفوظات ص 307۔