کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 117
بعد مر جاؤں گا۔ حضرت ایک اشرفی لے لیں، آدھی میں میرا دفن اور آدھی میں میرا کفن کریں۔ جب دوسرا دن ہوا اور ظہر کا وقت آیا، مرید مذکور نے آ کر طواف کیا، پھر کعبے سے ہٹ کر لیٹا تو روح نہ تھی۔ میں نے قبر میں اتارا، آنکھیں کھول دیں۔ میں نے کہا، "کیا موت کے بعد زندگی؟"
کہا ﴿ انا حیّ و کلّ محبّ للّٰه حیّ ﴾
"میں زندہ ہوں اور اللہ تعالیٰ کا ہر دوست زندہ ہے۔ "[1]
جناب بریلوی نے اپنی ایک اور کتاب میں عنوان باندھا ہے :
"انبیاء و شہداء اور اولیاء اپنے بدن مع اکفان کے زندہ ہیں۔ "[2]
جناب بریلوی کی طرف سے ایک اور افسانہ پیش خدمت ہے۔۔۔۔ کسی بزرگ سے نقل کرتے ہیں :
"میں ملک شام سے بصرہ کو جاتا تھا۔ رات کو خندق میں اترا، وضو کیا، دو رکعت نماز پڑھی، پھر ایک قبر پر سر رکھ کر سوگیا۔ جب جاگا تو صاحب قبر کو دیکھا، مجھ سے گلہ کرتا ہے اور کہتا ہے :
﴿ قد اٰ ذیتنی منذ اللیلۃ﴾ [3]
"اے شخص، تو نے مجھ کو رات بھر ایذا دی۔ "[4]
اس طرح کے جھوٹے واقعات، خانہ ساز کرامتوں اور قصے کہانیوں سے ان کی کتب بھری ہوئی ہیں۔ معلوم ہوتا ہے، افسانہ نگاری میں ان کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ ہر شخص دوسرے پر سبقت لے جانا چاہتا ہے۔
اس مذہب کے ایک پیروکار افسانہ نگاری کرتے ہوئے کسی بزرگ کے متعلق لکھتے ہیں :
[1] احکام قبور مؤمنین، رسائل رضویہ 245۔
[2] ایضاً ص 239۔
[3] احکام قبور مؤمنین ص 247۔
[4] احکام قبور مؤمنین ص 247۔