کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 113
لیے کہ وہ اپنی زندگی میں اسباب کے تابع تھے، مگر مرنے کے بعد وہ ان اسباب سے بے نیاز ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ اس غیر اسلامی فلسفے کی وضاحت کرتے ہوئے بریلویت کے ایک امام نقل کرتے ہیں کہ :
۔۔،،بے شک پاک جانیں جب بدن کے علاقوں سے جدا ہوتی ہیں، عالم بالا سے مل جاتی ہیں، تو سب کچھ ایسے دیکھتی سنتی ہیں جیسے یہاں حاضر ہیں۔"[1]
مذہب بریلویت کے ایک اور پیروکار لکھتے ہیں :
"مردے سنتے ہیں اور محبوبین کی وفات کے بعد مدد کرتے ہیں۔ "[2]
ایک اور بریلوی عالم دین رقمطراز ہیں :
"شیخ جیلانی ہر وقت دیکھتے ہیں اور ہر ایک کی پکار سنتے ہیں۔ اولیاء اللہ کو قریب اور بعید کی چیزیں سب برابر دکھائی دیتی ہیں۔ "[3]
اور خود بریلویت کے امام جناب احمد رضا خاں نقل کرتے ہیں :
"مردے سنتے ہیں کہ خطاب[4] اسی کو کیا جاتا ہے، جو سنتا ہو۔ "[5]
بریلویت کے خاں صاحب نے اپنی کتب میں بہت سی اسرائیلی حکایتیں اور افسانوی قصے کہانیاں نقل کی ہیں، جن سے وہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ بزرگان دین نہ صرف یہ کہ مرنے کے بعد سنتے ہیں، بلکہ کلام بھی کرتے ہیں۔
چنانچہ ارشاد کرتے ہیں :
"سید اسماعیل حضرمی ایک قبرستان سے گزرے، تو مْردوں کو عذاب ہو رہا تھا۔
[1] ایضاً ص 18،19
[2] علم القرآن از احمد یار ص 189۔
[3] ازالۃ اضلالۃ از مفتی عبدالقادر ص 67 طبع لاہور۔
[4] نبی صلی اللہ علیہ و سلم چاند کو خطاب کر کے فرمایا کرتے تھے۔’’ربی و ربک اللہ‘‘ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم جب سفر کا ارادہ فرماتے تو زمین کو مخاطب ہو کر فرمایا کرتے تھے۔’’یا ارض ربی وربک اعوذ باللہ من شرک‘‘ بہرحال ضروری نہیں کہ خطاب اسے ہی کیا جائے جو سنتا ہے۔
[5] فتاویٰ رضویہ جلد 4 ص 227۔