کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 112
استغاثہ کرنا بالکل ایسا ہی ہے، جیسے کوئی غرق ہونے والا شخص دوسرے غرق ہونے والے سے مدد طلب کرے۔ "
شیخ ابوعبداللہ القرشی کہتے ہیں کہ: "مخلوق کا مخلوق سے استغاثہ کرنا اس طرح ہے جیسے کوئی قیدی دوسرے قیدی سے رہائی کی طلب کرے۔ "
پھر موسیٰ علیہ السلام اپنی دعا میں فرمایا کرتے تھے :
"اے اللہ تو ہی تمام تعریفوں کا حق دار ہے۔ ہم آپ کے سامنے اپنی حاجتوں کو پیش کرتے ہیں۔ صرف تو ہی معین و مددگار ہے۔ تو ہی مخلوق کی فریاد رسی پر قادر ہے۔ ہم تجھ پر توکل کرتے ہیں۔ نفع و نقصان صرف تیرے ہاتھ میں ہے۔ "
سلف صالحین میں سے کوئی بزرگ بھی مافوق القدرت اشیاء سے استغاثے کو جائز نہیں سمجھتا"۔ [1]
سماع موتیٰ
بریلوی حضرات کا یہ عقیدہ گزشتہ عقیدے کا لازمی جزو ہے، کیونکہ انتقال کے بعد صرف وہی شخص مخلوق کی داد رسی و دستگیری کر سکتا ہے، جو ان کی پکار کو سنتا ہو۔ مذہب بریلویت کا اپنے بزرگوں کے بارے میں یہ اعتقاد ہے کہ وہ اپنے مریدوں کی نداء کو سنتے ہیں اور ان کی مدد کے لئے پہنچتے ہیں۔ خواہ ان کا مرید اس دنیا کے کسی گوشے سے بھی پکارے۔ اسی بنیاد پر یہ کہتے ہیں :
"اولیاء کرام اپنی قبروں میں حیات ابدی کے ساتھ زندہ ہیں۔ ان کے علم و ادراک و سمع و بصر پہلے کی نسبت بہت قوی ہیں۔ "[2]
یعنی مرنے کے بعد ان کے سننے اور دیکھنے کی قوت اور زیادہ تیز ہو جاتی ہے۔ اس
[1] فتاویٰ شیخ الاسلام ج1 ص 112۔
[2] بہار شریعت از امجد علی ص 58۔