کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 111
ذات کے لیے بھی نفع نقصان کا مالک نہیں ہوں۔ قرآن تو یہ بتلا رہا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنی ذات کے لیے بھی نفع و نقصان کا اختیار نہیں ہے، پھر وہ مختار کل کیونکر ہو سکتے ہیں؟ اور پھر جب خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ خدائی اختیار حاصل نہیں ہیں، تو باقی مخلوق میں سے کسی کو حاجت روا اور مشکل کشا کیسے مانا جا سکتا ہے؟ تعجب ہے ان لوگوں پر، جو ان بندوں کے سامنے دامن پھیلاتے اور ان سے اپنی حاجتیں مانگتے ہیں، جو منوں مٹی تلے دفن ہیں۔ وہ اس شرک سے باز کیوں نہیں آتے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات پر کیوں دھیان نہیں دیتے؟ کب انہیں﴿ قُلْ هُوَ اللّٰهُ أَحَدٌ ﴾کی صحیح تفسیر کا علم ہو گا؟ یہ لوگ کب﴿ لَا إِلَهَ إِلَّا اللّٰهُ﴾ کے صحیح مفہوم سے آشنا ہوں گے؟ اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ علم وفضل کے دعویدار ان کے واعظین و علماء، جنہیں عوام نے سچے راہنما سمجھ رکھا ہے، وہ انہیں ان مشرکانہ اور دور جاہلیت کے تصورات و اعمال سے کیوں نہیں روکتے؟ انہوں نے اپنی زبانوں پر مہر کیوں لگا رکھی ہے؟ ان کے عقائد تو دور جاہلیت کے مشرکوں سے بھی بدتر ہیں۔ وہ تو اپنے معبودوں کو اللہ تعالیٰ کے دربار میں فقط سفارشی سمجھتے تھے، مگر انہوں نے تو تمام خدائی اختیارات اپنے بزرگوں کو عطا کر دیئے ہیں۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی بجائے براہ راست اپنے بزرگوں سے مدد و معاونت مانگتے ہوئے ذرا سا بھی خوف محسوس نہیں کرتے۔ شیطان نے ان کے اذہان میں اپنے افکار اتار لیے ہیں۔ وہ شیطان کی پیروی کرتے چلے جارہے ہیں اور انہیں اس کی خبر بھی نہیں۔ وہ سمجھ رہے ہیں ہم نیکی کی راہ پر گامزن ہیں، حالانکہ وہ شیطان کی آنکھ کو ٹھنڈا کر رہے ہیں اور اس کی خوشی کا سامان مہیا کر رہے ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون!"[1] اور سب سے آخرع میں ہم شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی عبارت نقل کرتے ہیں۔۔۔ شیخ الاسلام فرماتے ہیں کہ: " حضرت بایزید بسطامی کہا کرتے تھے، مخلوق کا مخلوق سے
[1] فتح البیان، نواب صدیق حسن خان ج 4 ص 225