کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 110
بریلویت کے اور شاعر اپنے مذہب کے عقائد کی وضاحت کرتے ہوئے نغمہ سرا ہیں۔
غوث و قطب اولیاء احمد رضا
ہے میرا مشکل کشا احمد رضا
دونوں عالم میں ہے تیرا آسرا
ہاں مدد فرما شاہ احمد رضا
تو ہے داتا اور میں منگتا ترا
میں تیرا ہوں تو میرا احمد رضا! "[1]
قارئین کرام! ملاحظہ فرمائیے، کیا یہ عقائد قرآن کریم کی واضح آیات سے استہزاء کے مترادف نہیں ہیں؟ کیا ان میں اور کتاب و سنت میں کوئی مطابقت ہے؟ کیا ان سے یہ بات اچھی طرح واضح نہیں ہو جاتی کہ ان حضرات کا مقصد مشرکانہ عقائد اور دور جاہلیت کے افکار کی نشر و اشاعت ہے؟ کیا مشرکین مکہ کے عقائد ان سے ابتر تھے؟
اس سلسلے میں ہم یکتائے عصر، فرید دھر اور برصغیر کے مفسر و محدث علامہ نواب صدیق حسن خاں رحمہ اللہ کی تفسیر فتح البیان کی عبارت کا ذکر کرنا مناسب سمجھتے ہیں۔۔۔۔۔ نواب صدیق حسن رحمۃ اللہ علیہ فرمان خداوندی ﴿ قُلْ لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللّٰهُ ﴾ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
"اس آیت کریمہ میں ان لوگوں کے لیے سخت وعید ہے، جنہوں نے مصائب کے وقت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو پکارنا عقیدہ بنالیا ہے۔ کیونکہ قرآن کریم نے بڑی فصاحت سے یہ بیان فرما دیا کہ تکالیف و مصائب میں مدد کرنا اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے، انبیاء علیہم السلام و صالحین کا بھی وہ مددگار ہے۔ اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی امت سے واشگاف الفاظ میں کہہ دیں کہ میں اپنی
[1] (ایضاً) نور محمد اعظمی ص 47،48۔