کتاب: بریلویت تاریخ و عقائد - صفحہ 101
بریلویت کے ایک اور راہنما رقم طراز ہیں :
"حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم اللہ عزوجل کے نائب مطلق ہیں۔ تمام جہاں حضور کے تحت تصرف کر دیا گیا، جسے جو چاہیں دیں، جس سے جو چاہیں واپس لیں۔ "[1]
مزید ارشاد فرماتے ہیں :
"تمام زمین ان کی ملک ہے، تمام جنت ان کی جاگیر ہے، ملکوت السّموات والارض حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے زیر فرمان، جنت و نار کی کنجیاں آپ کے دست اقدس میں دے دی گئیں۔ رزق، خوراک اور ہر قسم کی عطائیں حضور صلی اللہ علیہ و سلم ہی کے دربار سے تقسیم ہوتی ہیں۔ دنیا و آخرت حضور علیہ السلام کی عطا کا ایک حصہ ہیں۔ "[2]
بریلوی طائفہ کے مفتی احمد یار گجراتی اپنے اس عقیدے کا اظہار یوں کرتے ہیں :
"سارا معاملہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم ہی کے ہاتھ کریمانہ میں ہے، جو چاہیں جس کو چاہیں دے دیں۔ "[3]
صرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ہی مالک کل اور مختار مطلق نہیں، بلکہ دوسرے انبیاء کرام (علیہم السلام) بھی مخلوق کی اندرونی حالت اور ان کی ارواح پر تصرف کر سکتے ہیں۔ اور ان کو قدرت حاصل ہوتی ہے، جس سے مخلوق کے ظاہر پر تصرف کر سکتے ہیں۔ "[4]
انبیاء و رسل کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی جنت و دوزخ کے مالک ہیں چنانچہ بریلویت کے امام احمد رضا صاحب موضوع روایت کا سہارا لیتے ہوئے رقمطراز ہیں :
"روز قیامت اللہ تعالیٰ سب اگلوں پچھلوں کو جمع فرمائے گا اور دو منبر نور لا کر عرش کے داہنے بائیں بچھائے جائیں گے۔ ان پر دو شخص چڑھیں گے داہنے والا پکارے گا: اے جماعات مخلوق، جس نے مجھے پہچانا اس نے پہچانا اور جس نے نہ پہچانا تو میں رضوان داروغہ بہشت ہوں۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ جنت کی کنجیاں
[1] بہار شریعت امجد علی جزء ا ص 15۔
[2] بہار شریعت امجد علی جزء 1 ص 15۔
[3] جاء الحق احمد یار البریلوی ص 195۔
[4] جاء الحق احمد یار البریلوی 195، 196