کتاب: عبدالعزیزبن عبدالرحمٰن آل سعود بانی مملکت سعودی عرب - صفحہ 89
حائل سے قصیم کی طرف روانہ ہوا ہے اور خاصی تیاری کے ساتھ ان کے خلاف نکلا ہے تو انہوں نے اپنے نمائندہ کو بریدہ بھیجا اور صلح کی پیشکش کی۔ ان کو تجویز دی کہ علماء اور مشائخ کے ذریعے شرائط طے کی جائیں اور جنگ کی بجائے صلح کی جائے۔ شاہ عبدالعزیز دراصل بے گناہ لوگوں کا خون نہیں بہانا چاہتے تھے۔ لیکن جب شہزادہ کا نمائندہ اس کے پاس پہنچا تو اس نے اس کا مذاق اڑایا اور کہا ’’جو نجد پر حکمرانی چاہتا ہے۔ اسے چاہیے کہ وہ لڑائی سے ڈر ے نہیں۔ اور ساتھ ہی اس نے قسم کھائی کہ وہ ابن سعود پر سخت وار کرے گا اور قصیم والوں کو بھی سبق سکھائے گا۔‘‘ اس وقت شہزادہ عبدالعزیز بریدہ میں تھے۔ جب ان کو ابن رشید کا پتا چلا کہ وہ بریدہ کے طرف آرہا ہے۔ تو شہزادہ عبدالعزیز اپنی فوجوں کو لے کر بریدہ سے نکلے کیونکہ وہ بریدہ کے قریب لڑائی نہیں لڑنا چاہتے تھے۔ دونوں فوجیں مشرقی بکیریہ کے قریب آمنے سامنے ہوئیں۔ اس جنگ میں قصیم والوں کو ترک فوجیوں کا سامنا کرنا تھا۔ لیکن سیدھے ہاتھ والوں کو کامیابی ہوئی۔ یہ قصیم والے تھے۔ اس جنگ میں ترکوں نے پانچ توپیں بھی استعمال کیں۔ لیکن کامیابی شہزادہ عبدالعزیز ارو ان کی فوجیوں کو نصیب ہوئی۔ یہ جنگ پہلی ربیع الثانی 1322ھ بمطابق 16جون 1904ء کو ہوئی۔ الشنانہ کا واقعہ اس کو وادی الرمہ کی لڑائی بھی کہتے ہیں۔ اس میں بھی شاہ عبدالعزیز کے