کتاب: عبدالعزیزبن عبدالرحمٰن آل سعود بانی مملکت سعودی عرب - صفحہ 66
رہے ہیں۔ اب آپ آزاد ہیں۔ آپ وہی کچھ کریں جو آپ کو پسند ہے۔ جہاں میرا تعلق ہے۔ میں اپنے آپ کو مذاق نہیں بنانا چاہتا۔ میں نہیں چاہتا کہ کویت کی گلیوں میں میرا مذاق اڑایا جائے۔ جو کوئی آرام، گھر والوں سے ملاقات اور میٹھی نیند کے علاوہ پیٹ بھر کر کھانا کھانا چتاہتا ہو وہ میرے بائیں جانب آجائے لیکن بجائے ان کے الٹے ہاتھ آنے کے سب ان کے سیدھے ہاتھ پر آگئے۔ وہ تلواریں سونت کر نعرے لگانے لگے۔ انہوں نے قسم کھالی کہ ’’وہ آخر دم تک ان کے ساتھ رہیں گے۔‘‘ اس وقت شہزادہ عبدالعزیز نے اپنے والد کے بھیجے ہوئے پیغام رساں کی طرف دیکھ کر کہا۔ ’’جاؤ اور امام کو میرے طرف سے اور ساتھیوں کی طرف سے سلام پہنچاؤ۔ اور جو کچھ تم نے دیکھا وہ سب بتاؤ۔ ان سے دعا کے لیے کہو اور یہ بھی کہ کہو ان شاء اللہ ہماری ملاقات ریاض میں ہو گی۔‘‘ شاہ عبدالعزیز بیرین سے 20 رمضان 1319ھ کو روانہ ہوئے۔ صحرا اور ریتلے ٹیلوں کو عبور کرتے ہوئے یہ چھوٹی سی فوج جو وفاداری، جان نثاری اور ایمانی جذبات سے مالا مال تھی۔ رات کو چلتی اور دن کو آرام کرتی۔ یہاں تک کہ ابن رشید کو ان کی خبریں بھی ملنی بند ہو گئیں اس نے مطمئن ہر کر ان گروپوں کو جو شہزادہ کی فوج کا پیچھا کر رہے تھے تعاقب کرنے سے روک دیا۔ شہزادہ عبدالعزیز اور ان کے ساتھیوں نے بہت کٹھن اور سخت وقت گزارا۔