کتاب: عبدالعزیزبن عبدالرحمٰن آل سعود بانی مملکت سعودی عرب - صفحہ 65
اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ شہزادے کے حامیوں میں اضافہ ہواتو وہ خوراک لینے اور آرام کے لیے اپنے ساتھیوں کے ساتھ جنوبی الاحساء میں ٹھہر گئے۔ اس وقت ابن رشید حضر الباطن میں تھا۔ یہ کویت اور قصیم کے درمیان کا علاقہ ہے۔ ابن رشید ایک بار پھر کویت پر حملہ کی تیاری کر رہا تھا۔ جب ابن رشید کو شہزادہ عبدالعزیز کی کامیابیوں کی خبریں ملنے لگیں تو وہ سخت پریشان ہوا۔ اس نے ان حالات سے الاحساء کے ترکی حکمران کو باخبر کیا تو وہ بھی پریشان ہو گیا۔ شہزادہ عبدالعزیز کی خبریں کویت بھی پہنچتی رہیں اور امام عبدالرحمٰن کو اپنے پیارے بیٹے کے بارے میں خوف محسوس ہوا تو اس نے ایک خط بھیجا جس میں مرقوم تھا۔ ’’پیارے بیٹے واپس آجاؤ۔ ہم ابن رشید سے لڑنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ اور ہماری مخالف سلطنت عثمانیہ بھی ہے۔ ہم دونوں کے خلاف ایک ہی وقت میں کیسے نبرد آزما ہو سکتے ہیں۔ ‘‘ اس وقت شہزادہ عبدالعزیز بیرین نامی مقام پر تھا جو الاحساء سے ایک سو ستر میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس نے ارد گر د دیکھا تو سوائے ان لوگوں کے جو کویت سے چلے تھے۔ کوئی نہ تھا۔ اس نے ان کو اکٹھا کر کے والد محترم کی طرف سے بھیجا گیا خط ان کے سامنے پڑھا اور پھر ان سے کہا: ’’میں زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا۔ یہ میرے والد کا مکتوب ہے۔ وہ ہمیں واپس کویت بلا رہے ہیں۔ اور ساتھ ہی کویتی امیر بھی واپس آنے کےلیے نصیحت کر