کتاب: عبدالعزیزبن عبدالرحمٰن آل سعود بانی مملکت سعودی عرب - صفحہ 64
کہہ رہے تھے، ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ ایسے آنسو ایک بیٹے کے لیے بہت ہی قیمتی ہوتے ہیں۔ جو میدان جنگ کی طرف نکل رہا ہو۔‘‘
اس موقعہ پر والد امام عبدالرحمٰن نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ان کے صاحبزادے کو کامیابی اور سربراہی عطا فرمائے اور ساتھ ہی صحیح فیصلہ کی قوت، اور انسانی طبیعت کی سمجھ بوجھ بھی۔
شہزادہ عبدالعزیز اپنے جان نثار ساتھیوں کو لے کر چل پڑے۔ ان جان نثار ساتھیوں میں آل سعود اور نجد کے دوسرے ہمدرد قبائل کے افراد تھے۔
یوسف یاسین شاہ عبدالعزیز کے حوالے سے لکھتا ہے کہ وہ سب سے پہلے عجمان میں رکے۔ وہاں کے کچھ لوگ ان کے ساتھ مل گئے۔ جب یہ خبر پھیل گئی کہ ابن سعود لڑائی کے لیے جارہا ہے۔ آل مرۃ قبائل سبیعی، اور سھول کے لوگ بھی ساتھ ہو گئے۔ ان کے ساتھ ملنے والے قبائل کا مقصد صرف مال غنیمت کی لالچ تھی شہزادہ عبدالعزیز قریبی علاقوں کو جو ابن رشید کے زیر اثر تھے فتح کرتے ہوئے تقریبا چھ سو میل تک پہنچ گئے۔ اس وقت ان کے ساتھیوں کی تعداد میں ایک ہزار پیدل افراد کے علاوہ چار سو گھوڑ سوار بھی شامل ہو چکے تھے۔
شہزادہ جب الدھناء پہنچے تو قحطان نے جو ابن رشید کا حامی تھا ماتحتی قبول کر لی۔ بہت سا مال غنیمت ہاتھ آیا۔ شہزادہ پھر واپس الاحساء آگئے۔ اس وقت الاحساء پر ترک حکمرانی کر رہے تھے۔ وہ ایک اور جماعت کے ساتھ سدیر کی طرف چلے اور اسے فتح کر لیا۔ پھر جب مطیر قبیلہ پر حملہ کیا تو ان کی فتوحات کی خبر پھیل گئی۔ قبائلی عادات کے مطابق جو فتح حاصل کرتا ہے اس کے حمایت کرنے والوں میں