کتاب: عبدالعزیزبن عبدالرحمٰن آل سعود بانی مملکت سعودی عرب - صفحہ 63
ایسے راستے پر لے جارہا ہے جس میں وہ مربھی سکتا ہے اور دوسرا نوجوان شہزادے کے ارادے کاکہ وہ عزم کر چکا تھا کہ وہ ان تمام دروازوں کو کھول دے گا جو مخالفین نے ان پر بند کر دئیے تھے۔‘‘ اس کے بعد شیخ مبارک سے ملاقات ہوئی۔ جنہوں نے اس سفر کے بارے میں معلومات مہیا کیں۔ جس کے لیے شہزادہ عبدالعزیز تیاریاں کر رہا تھا۔ اس وقت شیخ مبارک خوف کی کشمکش میں تھے۔ یہ خوف اسے اپنی جان اور اپنے ملک کا تھا انہوں نے شہزادہ عبدالعزیز کے منصوبے پر صاد کیا۔ اور کچھ اونٹ،مال اور اسلحہ دیا تاکہ وہ اپنے کٹھن مشن پر روانہ ہو جائے۔ جب شہزادہ عبدالعزیز نے ارد گرد دیکھا تو انہیں مشکلات اور وسائل کی کمی نظر آئی۔ لیکن ان کی قوت ارادی اور قربانی کا جذبہ عظیم تھا۔ اس نے تاریخی فیصلہ کیا تھا۔ وہ اپنے افراد کے چہروں پر اور آنکھوں میں عزم اور پختہ ارادہ کی چمک دیکھ رہا تھا۔ رات کے اندھیرے میں چالیس گھوڑوں پر سوار ہو کر 30 بندوقیں اور دو سو ریال ساتھ لے کر روانہ ہو گیا۔ شہزادہ اپنے والد امام عبدالرحمٰن کی ملاقات کے لیے گیا تو انہوں نے نصیحت کرتے ہوئے کہا۔ ’’میں تمہارے راستہ کی دیوار نہیں بننا چاہتا لیکن تمہیں ہماری حالت کا علم ہے کہ ہم یہاں کس طرح وقت گزار رہے ہیں۔ جب تم نے ارادہ کر ہی لیا ہے تو میں اللہ تعالیٰ سے تمہارے لیے کامیابی کی دعا کرتا ہوں۔‘‘ یوسف یاسین نے شاہ عبدالعزیز کی زبانی ذکر کیا ہے ’’جب والد مجھے الوداع