کتاب: عبدالعزیزبن عبدالرحمٰن آل سعود بانی مملکت سعودی عرب - صفحہ 61
والد اور صاحبزادے کے درمیان انقلابی ملاقات شاہ عبدالعزیز جنگ صریف کے دوران ریاض میں داخل ہونےاور چند مہینے رہنےکے بعد جب دوبارہ کویت تشریف لے گئے تو انہوں نے ان حالات پر دوبارہ غورو فکر کیا جو کچھ انہوں نے نجد میں دیکھا تھا۔ شہزادہ عبدالعزیز کی اکی بہن تھیں جن کانام نورا تھا۔ شہزادہ عبدالعزیز کو اس بہن سے بے پناہ محبت تھی کیونکہ وہ ایک ذہین خاتون تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ کبھی کبھی شہزادہ جذبات میں آکر نعرہ لگاتے تھے ’’میں نورا کا بھائی ہوں ‘‘ شہزادی ’’نورا ‘‘ آل رشید کے تسلط کے خلاف تھیں اور ہمیشہ اس فکر میں رہتی تھیں کہ کس طرح اور کب وہ اپنی مملکت کو حاصل کرسکیں گے۔ شہزادی نورا کو شہزادہ عبدالعزیز اپنی تمام راز کی باتوں سے آگاہ کرتے رہتے تھے۔ ان سے مشورہ بھی لیا کرتے تھے انہوں نے ریاض پردوبارہ حملہ کرنے کے سلسلے میں بھی اپنی بہن سے مشورہ کیا تھا۔ انہوں نے شہزادہ عبدالعزیز کے عزم و ارادہ کی حمایت کی۔ اس وقت ان کی آنکھوں میں امید کی روشنی چمک رہی تھی۔ اسی لیے شہزادہ عبدالعزیز نے ایک نئے ولولے اور ارادے کا اظہار کیا اور اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اپنے اس ارادہ کو عملی جامع پہنانے کا پختہ عزم کر لیا۔ شہزادہ عبدالعزیز نے اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے اپنے آباؤ و اجداد کے مملکت کو واپس لینے کے لیے اپنے والد کے سامنے پیش ہونے کا فیصلہ کر لیا کہ وہ پہلی اور دوسری بار کوشش کریں گے کہ اپنی سلطنت دوبارہ حاصل کر سکیں۔ ان کے والدان کو تسلی دیتے رہے لیکن صبر کا پیمانہ اس وقت لبریز ہوا جب انہوں نے