کتاب: عبدالعزیزبن عبدالرحمٰن آل سعود بانی مملکت سعودی عرب - صفحہ 5
احوال واقعی ......مولف میں 1977ء سے 1987ء تک مملکت سعودی عرب میں بحیثیت سفارت کار مقیم رہا۔ اس دوران، میں نے پاکستان اورمملکت سعودی عرب کی قیادت کے درمیان ترجمانی کے فرائض بھی انجام دئیے۔ ایک سال کے مختصر عرصے کے بعد مجھے دوبارہ بحیثیت سفارت کار 1989ء سے اگست 1990ءتک اور پھری جنوری 1994ء سے 1995ء تک ارض مقدس میں رہنے کا موقع ملا۔ 1990ء سے 1994ء تک گورنر سندھ کے آفیسر تعلقات عامہ کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اس تعیناتی کے دوران مجھے کراچی یونیورسٹی میںPHD کی رجسٹریشن کا موقعہ ملا۔ PHD کاعنوان تھا ’’مملکت سعودی عرب میں اسلامی نظا م اور عالم اسلام بر اس کے اثرات۔‘‘ پی ایچ ڈی کے مقالہ کی تیاری کی غرض سے جب میں نے مملکت سعودی عرب کی تاریخ پر لکھی گئی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا تو مجھے یہ جان کر بڑی حیرت ہوئی کہ مملکت سعودی عرب کے دور جدید کے بانی شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعود کی شخصیت مورخوں کی توجہ کا مرکز رہی ہے۔ یہ وقت تھا جب ابھی مملکت سعودی عرب تیل کی دولت سے مالا مال نہیں ہوا تھا۔ شاہ عبدالعزیز کی شخصیت پر لکھنے والوں کا تعلق نہ صرف سعودی عرب تک محدود تھا بلکہ ان کی اکثریت کا تعلق دیگر ممالک سے بھی تھا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ کسی کتاب میں بھی ان کی شخصیت کوتنقید کا نشانہ نہیں بنایا گیا۔ بلکہ ان تمام مصنّفین نے خواہ ان کی ملاقات ان سے ہوئی ہو یا نہیں، ان کی زندگی کے تمام گوشوں پر روشنی ڈالی ہے۔ ان تمام کتابوں کا مطالعہ کرنے کے