کتاب: عبدالعزیزبن عبدالرحمٰن آل سعود بانی مملکت سعودی عرب - صفحہ 402
حاصل کر رہے تھے۔ چھٹے کنویں سے بھی کچھ نہیں ملا۔ جس سے ان کی ناامیدی میں مزید اضافہ ہوا۔ یہاں تک کہ ظہران اور کلیفورنیا کے درمیان یہ گمان ہونے لگا کہ کسی وقت بھی حکم آسکتا ہے کہ تیل کی تلاش بند کر کے واپس آجاؤ۔ اچانک اطلاع ملی کہ کمپنی کے ڈائریکٹر جنرل خود آرہے ہیں اور یہ بھی کہ کمپنی کے اکاؤنٹ میں ڈالرز امریکہ سےمنتقل ہو چکے ہیں۔ نیا سامان بھی روانہ ہو چکا ہے لیکن ساتویں کنویں کو اچھی طرح کھودا بھی نہ گیا تھا کہ ایک معجزہ ہوا۔ جس سے امریکیوں کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ زمین سے خزانہ اہل پڑا اور اتنا تیل نکلا جس پر خود امریکی حیران و پریشان تھے۔ یہ مارچ1938ء کی بات ہے۔ اب تاریخ کا ایک نیا دور شروع ہو چکا تھا۔ یہ واقعہ نہ صرف کیلیفورنیا کمپنی کے لئے حیران کن تھا بلکہ پورے جزیرہ نمائے عرب کے لئے ایک معجزہ تھا۔ یہ کنواں آج بھی سات نمبر سے پکارا جاتا ہے۔ 1933ء سے 1938ء کے آخر تک ان پانچ سالوں میں 575 ہزار بیرل تیل نکلا۔ لیکن صرف 1939ء میں 39 لاکھ 34 ہزار بیرل نکالا گیا۔ یعنی گذشتہ پانچ میں سالوں سات گناہ۔ یہ مقدار 1940ء میں پچاس لاکھ 75 ہزار بیرل اور 1945ء میں یہ 2کروڑ 13 لاکھ کو 11ہزار، بیرل تک پہنچی۔ یہ دنیا میں جہاں جہاں تیل نکلا ہے اس سے زیادہ ہے۔ 1946ء میں 990 لاکھ 66 ہزار بیرل ہوا یعنی سالانہ 0ملین بیرل، 1947ء میں آٹھ کروڑ 98 لاکھ 25 ہزار بیرل یعنی نوے ملین بیرل ہو گیا۔ کام کرنے والوں کی تعداد بیس ہزار ہو گئی۔ یہ حقیقت ہے کہ وہ صحراؤں میں ایک نئی تاریخ رقم کر رہے تھے۔ اس سے جزیرہ نما میں ترقی کا ایک انقلاب