کتاب: عبدالعزیزبن عبدالرحمٰن آل سعود بانی مملکت سعودی عرب - صفحہ 39
ابراہیم پاشا کا درعیہ میں داخل ہونے کے بعد ظلم و ستم جب ابراہیم پاشا درعیہ میں داخل ہوا تو اس نے الھویسہ نامی باغ کے پاس اپنا مرکز بنا لیا۔ پھر فوجوں کو شہر کی طرف بھیج دیا۔ اس نے حکم جاری کیا کہ درعیہ کی دیواروں کو گرا دیا جائے۔ فصیلوں کو مسمار کر دیا جائے۔ فوجیوں نے جب یہ حکم سنا تو کھانے پینے کی چیزیں چھیننے لگے، قتل و غارت کا بازار گرم ہو گیا اور اہل علم پر طرح طرح کی سختیاں کی گئیں۔ قتل ہونے والوں میں الشیخ علی بن محمد بن راشد العربی بھی شامل تھے جو الخرج کے قاضی تھے۔ صالح بن راشد الحربی، عبداللہ بن صقر الحربی جیسے علماء کو توپوں کے دہانوں سے باندھ کر اڑا دیا۔ مشہور اور عظیم عالم دین شیخ قاضی احمد بن رشید حنبلی کو لا کر زدوکوب کیا گیا۔ ان کے تمام دانت نکلوا دئیے گئے۔ الشیخ سلیمان بن عبداللہ بن محمد بن عبدالوہاب جیسے جلیل القدر عالم دین کو جب بلایا گیا تو پہلے موسیقی کے آلات حاضر کئے گئے۔ زانیر نوازی سے شیخ کو نفسیاتی طور پر تنگ کرنا مقصد تھا۔ اس محفل کے اختتام پر ان کو ایک قبرستا ن میں لے جایا گیا اور کئی فوجیوں کو حکم دیا گیا کہ ان پر گولیا ں چلائیں اس طرح ان کے جسم کے پرخچے اڑا دئیے گئے۔ ان وحشیانہ مظالم کے بارے میں جب بعد میں ابراہیم پاشا سے پوچھا گیا کہ ایسا کس کے حکم پر کیا گیا تو اس نے کہا کہ ’’یہ محمد علی پاشا والی مصر کا حکم تھا۔‘‘ اور جب والی مصر سے پوچھا گیا تو اس نے کہا ’’یہ آستانہ استنبول کا حکم تھا ‘‘ اس کے بعد آل سعود الشیخ خاندانوں میں سے زندہ افراد کو قید کر