کتاب: عبدالعزیزبن عبدالرحمٰن آل سعود بانی مملکت سعودی عرب - صفحہ 389
کاخوب پتا ہے۔ میں جب کوئی بات کرتا ہوں تو وہ اس کو قبول کرتے ہیں کیونکہ ان کا مجھ پر اچھا گمان ہے او ر میری نیت اور میرے عقیدہ کی پختگی ان کے علم میں ہے۔‘‘ پھر فرمایا ’’یہود جہاں بھی ہوں وہ ہمارے دشمن ہیں۔ وہ دنیا میں جہاں بھی جاتے ہیں۔ فساد برپا کرتے ہیں اور وہ بھی ہماری مصلحتوں کے خلاف۔‘‘ اس کمیٹی کے امریکی نثراد سربراہ کو شاہ نے ملاقت کے دوران بتایا ’’ہم جانتے ہیں کہ یہود کی کیا خواہشات اور کیا مقاصد ہیں۔‘‘ اور جب بات چیت کے درمیان انہوں نے زرعی آلات دینے کی بات کی تو شاہ عبدالعزیز نے جواب دیا۔’’ ہم ایسی زراعت نہیں چاہتے۔ زراعت پر موت کو ترجیح دے دیں گے اگر یہود ہمارے ہاں ہیں۔‘‘ پھر ممبروں کو مخاطب کرتے ہوئےانہوں نے کہا ’’ میں آپ لوگوں سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں۔ کیا آپ اس بات پر راضی ہونگے کہ کوئی عرب کسی انگریز خاتون یا امریکی خاتون کی بے حرمتی کرے۔‘‘ یہود عرب ملکوں کے پاس آکر ان کے املاک چھین لیتے ہیں۔ ان کو ان کے گھروں سے بے دخل کر دیتے ہیں۔ ان کو سزا دیتے ہیں۔ آپ مجھے بتائیں کون سی عقل، دین یاسیاست اس کی اجازت دیتی ہے۔ ایسے میں ان یہودیوں کو عرب کیسے قبول کریں۔‘‘ پھر شاہ عبدالعزیز نے فرمایا۔