کتاب: عبدالعزیزبن عبدالرحمٰن آل سعود بانی مملکت سعودی عرب - صفحہ 383
مؤقف کا کھل کر اظہار کیا۔ 1946ء کو ایک فلسطینی وفد شاہ عبدالعزیز سے ملنے کیلئے آیا۔ اس موقع پر شاہ عبدالعزیز نے اپنے موقف کا اظہار کرتے ہوئے کہا! ’’میرے دماغ میں فلسطین کا مسئلہ ہی ہے۔ میں اس کی بہتری کیلئے کام کرتا رہوں گا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق کیلئے کا م کرنے کی توفیق دے۔ میرا تمام ذمے دار لوگوں سے رابطہ ہے۔ میرا طریقہ کا ر باتیں کرنا نہیں بلکہ خاموشی سے کا کرنا ہے۔ ایک دن ایسا آئے گا جب یہ مسئلہ حل ہو گا۔ پھر ہماری جدوجہد کا پتا چلے گا کہ کس طرح عربوں کی مصلحت میں ہم نے اس کو حل کرنے کی جدو جہد کی۔ یہ یاد رکھیں کہ ایک دن حق ضرور سرخرو ہو گا۔ آپ ڈٹے رہیں اور ایک دوسرے سے اتفاق و اتحاد رکھیں۔‘‘ انہوں نے فرمایا ’’میرا مسئلہ فلسطین سے صرف لگاؤ نہیں بلکہ میں اسے ایمان اور دین کا حصہ سمجھتا ہوں۔ فلسطین کا مسئلہ عرب ملکوں کا مسئلہ ہے۔ میری یہ کوشش ہے کہ دین کی حفاظت کیلئے میں، میری اولاد، ہماری عزت،ہمارا ملک قربان ہو۔ فلسطین والے میرے بچوں جیسے ہیں۔ دین کے بعد ان کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔‘‘ خیر الدین الزکلی شبہ الجزیرہ نامی کتاب کے صفحہ 1079پر لکھتے ہیں ’’4 جنوری 1938ء کو ایک برطانوی نمائندہ وادی عقیق میں جومکہ ّ مکرّمہ کے حدود سے باہر نجد کے راستہ پر واقع ہے شاہ سے ملاقات کے لئے آیا۔ اس کے سامنے شاہ عبدالعزیز نے فلسطین کے بارے میں اپنے مؤقف کا اظہار کیا اور برطانوی مؤقف کے بارے