کتاب: عبدالعزیزبن عبدالرحمٰن آل سعود بانی مملکت سعودی عرب - صفحہ 353
ہے۔‘‘ صیہونیت کے مسئلہ کے سلسلے میں ان کی بات کاٹتے ہوئے شاہ عبدالعزیز نے کہا:۔ ظالم دشمن کوکہیں کہ وہ تاوان جنگ ادا کرے۔ عربوں کا جنگ میں یہی طریقہ ہے کہ مجرم تاوان جنگ ادا کرے۔ عربوں نے یورپ کے یہودیوں کے خلاف کیا جرم کیا ہے۔ یہ تو جرمن مسیحیوں کی کارستانی ہے کہ انہوں نے یہودیوں کے گھر بار لوٹ کر ان کو قتل کیا۔ اب جرمنی ہی کو اس کی قیمت ادا کرنی چاہیے۔‘‘ اس دوران شاہ عبدالعزیز نے جرات مندانہ انداز میں کہا کہ عربوں کا یہ طریقہ ہے۔ کہ جنگ میں زندہ بچ جانے والوں اور زخمیوں کو ان قبائل میں تقسیم کر دیا جاتا ہے جو فاتح ہوتے ہیں اس وقت 50 ممالک سے زیادہ حلیف ہیں۔ فلسطین تو ایک چھوٹی سی ریاست ہے۔ اور مالی طور پر بھی کمزور ہے۔ اس میں سا کی طاقت سے زیادہ پناہ گزین آگئے ہیں۔‘‘ اس دوران شاہ عبدالعزیز نے اپنے بارے میں کہا ’’ ان کی مملکت اور عوام کا صرف ایک ہی مقصد ہے اور وہ آزادی ہے۔ ان کا عتماد اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہے۔ ان کا ملک اب تک کسی کے ماتحت نہیں رہا ہے، نہ جنگ میں کسی کی طرف داری کی ہے جیسا کہ دوسرے عرب ممالک نے کی۔‘‘ انہوں نے کہا۔ وہ ایسے دوستی کے طلب گار ہیں جو دونوں ملکوں کے درمیان برابری کی سطح پر ہو۔ روز ویلٹ اور ابن سعود نے بات چیت کے دوران شام اور لبنان کی آزادی کے بارے میں بھی گفتگو کی۔