کتاب: عبدالعزیزبن عبدالرحمٰن آل سعود بانی مملکت سعودی عرب - صفحہ 349
انتظام کیا گیا۔بادشاہ بھی ان کے درمیان بیٹھ گئے۔ کھانے کے دوران وہ پر لطیف انداز میں اپنے عسکری قصے سناتے رہے۔
ایک لڑائی جس میں ان کی انگلیاں زخمی ہو گئی تھی وہ دکھائیں آخر میں شاہ عبدالعزیز کو ایک جنگی فلم دکھائی گئی جس میں اینٹی ائر کرافٹ کے استعمال کا طریقہ تھا۔ شاہ عبدالعزیز اس جہاز اور اس میں جنگی سامان کو دیکھ کر حیرت زدہ ہو گئے۔
اس دورہ کے بارے میں ایڈی لکھتے ہیں۔
’’ میری ذمہ داریاں بہت زیادہ تھیں۔ کیونکہ میں شاہ اور ان کے ساتھیوں اور امریکیوں کے درمیان ترجمانی کے فرائض ادا کر رہا تھا۔ میں شاہ کے ملازموں کو منع کرتا کہ وہ کوئلہ سے جہاز پر قہوہ نہ بنائیں۔ خاص کر اس جگہ جہاں بارود ہوتا اور امر یکیوں کو بھی یہ تلقین کرتا کہ جب یہ مہمان نماز کی ادائیگی کر رہے ہوں تو ان کے سامنے نہ گزریں۔
ایک دفعہ مغرب کی نماز کے وقت قریب تھا کہ بادشاہ نے پوچھا ’’ شہزادہ منصور کہا ہے ؟‘‘ کسی کو ان کے بارے میں علم نہ تھا۔ بادشاہ نے مجھے بلایا تاکہ میں اسے جہاز پر تلاش کر کے لے آؤں۔ شہزادہ منصور جہاز کے اگلے حصے میں جانے کے بعد راستہ بھول گئے تھے۔ اس پر شاہ عبدالعزیز بہت ناراض ہوئے۔
جب سفر مکمل ہو گیا اور وہ جہاز سے اترنے لگے تو اترنے سے پہلے انہوں نے تحفے تقسیم کئے۔ ہر ایک کو ایک ایک گھڑی دی۔ جس پر ان کا نام لکھا ہوا تھا اور چھوٹے اسٹاف میں ہر ایک کو پندرہ پندرہ پاؤنڈ دئیے۔
14 فروری 1945ء کو صبح ساڑھے دس بجے اس مقام پر جنگی جہاز پہنچا تو کوئنسی