کتاب: عبدالعزیزبن عبدالرحمٰن آل سعود بانی مملکت سعودی عرب - صفحہ 342
وہاں پہنچ گئے۔ اس وقت تک حالات پرسکون نہیں ہوئے تھے۔ چنانچہ خود شاہ عبدالعزیز پیدل وہاں پہنچے۔ ان کے باڈی گارڈز اور شہزادے ان کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے۔ وہ موقع پر اتنی تیزی سے آئے تھے کہ اندھیرے میں ان کے گارڈز پیچھے رہ گئے تھے۔ شاہ عبدالعزیز نے مصری محمل کےقائد کو بلایا۔ جب مصری قائد ان کے پاس آیا تو شاہ عبدالعزیز نے بلند آواز سے کہا ’’ دیکھو اللہ تعالیٰ کو یاد کرو۔ دین کا واسطہ ہے اور آپ کی حمیت کا واسطہ۔ آپ کے عربی ہونے کا واسطہ ہے۔ دیکھو حجاج کرام ہمارے مہمان ہیں ان کے اوپر ہاتھ مت اٹھاؤ۔ اور شاہ عبدالعزیز نے پوچھا کہ تم نے ان بے گناہوں کو کیوں قتل کیا جبکہ تم اور تمہارے فوجی حالت احرام میں ہیں۔ اور یہاں قانون اور حکومت ہے۔ اگر تم مجھے مطلع کرتے تو تمہیں جواب دیتا۔ مصری قائد نے کہا ’’ میں نے آپ کے احترام میں خاموشی اختیار کی ورنہ میں زیادتی کرنے والوں سے نمٹ لیتا۔ شاہ عبدالعزیز نے غصے پر قابو پا کر فرمایا ’’ یہ تکبر والی جگہ نہیں ہے۔ یہ مقدس سرزمین ہے۔ یہاں کوئی قتل نہیں کر سکتا۔ آپ لوگ مہمان ہیں۔ اور آپ کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔ ورنہ ہم سب کچھ کر سکتے ہیں۔‘‘ بعد ازاں انہوں نے شہزادہ فیصل کو ہدایات دے کر کچھ سعودی فوجی ان کے ساتھ کر دئیے۔ یہاں تک کہ حج ختم ہوا اور سعودی فوجیوں کی حفاظت میں وہ مکہ مکرمہ سے جدہ لائے گئے اور مصر روانہ کر دئیے گئے۔