کتاب: عبدالعزیزبن عبدالرحمٰن آل سعود بانی مملکت سعودی عرب - صفحہ 317
’’الاحساء میں تجارتی قافلے ترکوں کے دور اقتدار میں بغیر فوجی سپاہیوں کے ہر گز نہیں گزر سکتے تھے اور ان سے ٹیکس بھی لیا جاتا تھا۔ عقیر اور الاحساء کے درمیان نجد سے آنے والوں کے لیے یہی ایک تجارتی راستہ تھا۔
جب ایک تاجر عقیر سے ہفوف آنا چاہتا تھا جس کی مسافت چالیس میل تھی تو اس سے ہر پانچ اور دس میل پر ٹیکس لیا جاتا تھا۔
اس راستہ کےجنوب میں عجمان بنو مرۃ قبیلہ والے تھے۔
بنو حاجر شمال سے تعلق رکھتے تھے۔ الدھنا ء اور الدواسرنے ان راستوں پر لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا تھا۔
جیسے ہی بحرین سے تاجر آتا وہ عقیر کی بند گاہ پر اتر کر عجمان کو ٹیکس دیتا تھا۔ العقیر سے النخیل 5 میل پر ہے اور پچاس میلوں میں بنو ہاجر ایک تاجر سے پچاس ریال وصول کرتے تھے۔
اگر کوئی اچھی قسمت والا تاجر بچ بچا کےنکل آتا تو وہ اپنے سامان کے ساتھ الاحساء تک نہیں آسکتا تھا۔
الاحساء میں مقیم ترکی فوجی جب ڈاکوؤں پیچھا کرتے تھے تو ڈاکو ان کا سب کچھ چھین لینے کے علاوہ ان کے سواریاں بھی چھین لیتے تھے۔ یہاں تک کہ ترکوں کے بدن کےکپڑے بھی نہیں چھوڑتے۔ ترک فوجی اپنے ٹھکانوں پر ننگے واپس آتے تھے۔
یہ خطرناک حالات الاحساء میں شاہ عبدالعزیز کے داخلے سے پہلے کے تھے لیکن آل سعود کی حکمرانی میں الاحساء کے حالات بالکل بدل گئے۔ یہ امین الریحانی کا