کتاب: عبدالعزیزبن عبدالرحمٰن آل سعود بانی مملکت سعودی عرب - صفحہ 300
ایک بڑھیا کی دعا ایک دفعہ راستے میں ایک بڑھیا نے شاہ عبدالعزیز کو روکا۔ اور دعا دی ’’ اللہ تعالیٰ تمہیں آخرت میں بھی اسی طرح نوازے۔ جیسا کہ اس نے دنیا میں نوازا ہے ‘‘ شاہ عبدالعزیز بڑھیا کی یہ دعا سن کر بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے حکم دیا کہ گاڑی میں جتنی بھی رقم ہے وہ اس بڑھیا کو دے دی جائے۔ اس گاڑی میں دس تھیلیاں تھی۔ اور ہر تھیلی میں پانچ سو ریال تھے۔ پانچ ہزار ریال جب اسے دئیے گئے تو اسے اٹھا نہیں سکتی تھی۔ شاہ عبدالعزیز نے خچر دیا۔ اور اپنا ایک نوکر اس کے ساتھ بھیج دیا کہ صحرا میں اسے اس کے گھر پہنچا دیا جائے۔ شاہ عبدالعزیز کہا کرتے تھے کہ یہ سخاوت انفاق فی سبیل اللہ میری اپنی استطاعت نہیں۔ بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عنایت و عطیہ ہے جو اسی کی طرف سے مقرر ہے۔ اس میں سب شریک ہیں۔ اس لئے تم مجھے وہ کام بتاؤ جو مجھے رب کے قریب کر دے۔ اور میری مغفرت کا وسیلہ بن جائے۔ شاہ عبدالعزیز کا ریاض میں ایک گھر تھا۔ جس کا نام ثلیم تھا۔ وہ انہوں نے فقیروں کی رہائش کے لیے مخصوص کر دیا تھا اور بدو بھی اس میں آیا کرتے تھے۔ اس کو المضیف بھی کہا جاتا تھا۔ صبح و شام اس میں ایک ہزار مہمانوں کے لیے کھا نا پکتا تھا۔ جو چاول، سالن اور گوشت پر مشتمل ہوتا تھا اس دیگ کو کھانے کےبعد جب دھویا جاتا تھا تو ایک خاص سیڑھی لگائی جاتی تھی۔ ان کی سخاوت کی کہانیاں بے شمار ہیں۔