کتاب: عبدالعزیزبن عبدالرحمٰن آل سعود بانی مملکت سعودی عرب - صفحہ 30
فواد حمزہ ابنی کتاب ’’قلب الجزیرہ العرب ‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’اس وقت امام عبدالعزیز کی حکمرانی فرات کے کناروں سے لے کر وادی السرحان اور راس الخیمہ، عمان اور خلیج میں حجاز اور عسیر تک پھیلی ہوئی تھی۔ عثمانی خلافت کے حکمران آل سعود کی اس وسیع مملکت سے خائف تھی اس لیے اس نے عثمان پاشا کو 1805ء میں حلب(شام)کا گورنر مقرر کر کے دمشق بھیجا اور پھر اس کو فوجوں کا سربراہ بنا کر 1806ء جدہ بھیجا اس کے علاوہ مصر اور عراق جو عثمانی سلطنت کے زیر نگین تھے کو احکامات جاری کر دئیے کہ مصر والے ینبع کے راستے مدینہ منورہ کی طرف جائیں۔ عراق والے درعیہ پر حملہ کر دیں اور ایک اور فوجی دستہ عثمان پاشا کی قیادت میں تیار رکھا جائے۔ جب امام سعود الکبیر کو پتا چلا کہ مصری اور ترکی ینبع کے راستہ مدینہ منورہ کی طرف آرہے ہیں تو انہوں نے اپنے صاحبزادے عبداللہ کو ان کے مقابلہ کے لئے بھیجا انہوں نے1811ء میں اس حملہ کو نام کام بنا دیا جو محمد علی پاشا کے صاحبزادے طوسون پاشا کی قیادت میں ینبع کے راستہ کیا گیا۔ 1813ء میں جھڑپ مصری فوجوں اور سعودی افواج کے درمیان ہوئی۔ جس میں سعودی فوجوں کو کامیابی ہوئی۔ 1814ء میں سعود الکبیر کا انتقال ہوا۔ سعود الکبیر، آل سعود کے خاندان میں اپنی بہادری کے لیے بہت مشہور تھے۔ اور ان کے دور میں حکومت کے حدود عمان، وادی حضر موت،نجران، عیسر،فرات کے کناروں کے علاوہ دمشق تک جا پہنچے۔ امام سعود بن عبدالعزیز نہایت متقی اور پرہیز گا ر تھے انہوں نے نو مرتبہ حج ادا