کتاب: عبدالعزیزبن عبدالرحمٰن آل سعود بانی مملکت سعودی عرب - صفحہ 297
حالات کا ہمیں علم تھا۔ اس وقت شاہ عبدالعزیز کے مالی حالات اچھے نہ تھے انہیں حجاز میں آئے ہوئے دو سال ہوئے تھے۔ ان حالات میں ان کے اخراجات بہت زیادہ تھے۔ اسلامی کانفرنس کی وفود انکے مہمان تھے۔ اسی طرح صحافیوں کی بڑی تعداد بھی تھی جو اس کانفرنس کے لیے آئی ہوئی تھی۔ ساتھ ہی ان کے خاندان کے افراد حج کے لیے مکہ مکرمہ میں موجودہ تھے۔ علاوہ ازیں آل رشید اور آل عائض کے خاندان کے تقریباً دو ہزار افراد تھے۔ چار سو سے زیادہ تو اونٹ تھے۔ اور تمام کی اخراجات کی ذمہ داری اعلیٰ حضرت شاہ عبدالعزیز پر تھی۔ ہمارا اپنا خیال تھا کہ ایک ہزار عثمانی(سونے کے لیروں)سے زیادہ ان پر بوجھ نہیں ڈالیں گے۔ جب ہم نے یہ تجویز پیش کی تو کہنے لگے ٹھیک ہے یہ میرا حصہ ہوا۔ لیکن نجد کے طرف سے کتنا ؟ ہم نے کہا کہ نجد کا بھی اتنا ہی۔ انہوں نے مہربانی کی اور کہا یہ بھی منظور ہے۔ چنانچہ شاہ عبدالعزیز نے دوہزار سونےکے لیرے دئیے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اگر حالات اچھے ہوتے تو میں اس سے بھی زیادہ دیتا۔ یہ ان کی سخاوت کی باتیں ہیں۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی واقعات ہیں ان کا ایمان کامل تھا کہ یہ سب مال و دولت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ وہ ضرورت مندوں میں تقسیم کر کے خوشی محسوس کرتے۔