کتاب: عبدالعزیزبن عبدالرحمٰن آل سعود بانی مملکت سعودی عرب - صفحہ 28
امن و امان کی کیفیت معلوم ہوتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’عجم سے ایک حاجی آیا جو وادی سبيع میں ٹھہر گیا۔ اس کے سامان کا کچھ حصہ چوری ہو گیا جس کی قیمت تقریباً دس قرش کےبرابر تھی۔ اس نے امام عبدالعزیز کو خط لکھا اور اس واقعہ کی اطلاع دی۔ امام عبدالعزیز نے اس علاقہ میں رہنے والے تمام قبائلی سرداروں کو بلایا کہ مجھے بتاؤ یہ چوری کس نے کی ہے ورنہ میں تمہارے پاؤں میں لوہے کی بیڑیاں ڈال دوں گا اور جیل بھیج دوں گا۔‘‘ اس پر قبائلی سرداروں نے کہا کہ ہمیں واپس جانے دیں۔ تاکہ ہم اس چور کے بارے میں معلومات حاصل کر کے آپ کی خدمت میں پیش کر دیں۔ جب اس چور کو پیش کیا گیا تو اس وقت شکایت کرنے والا اپنے ملک کو واپس جا چکا تھا۔ امام عبدالعزیز نے اس کا چوری کیا ہوا سامان امیر الزبیر کو بھیجا اور اس کو ہدایت کی کہ یہ اس کے مالک تک پہنچا دیا جائے۔‘‘ ابن بشر مزید لکھتے ہیں ’’امام عبدالعزیز خیرات اور صدقات دینے میں بہت پیش پیش تھے۔ کوئی بھی ملنے آتا خواہ امراء، قاضی، عالم یا طلبہ، ان میں سے کس کو خالی ہاتھ واپس نہیں جانے دیتے تھے۔ قرآن پاک پڑھنے اور پڑھانے والوں کو وہ خصوصی اہمیت دیتے تھے۔ آئمہ مساجد اور موذنین کی بہت عزت کرتے تھے۔‘‘ رمضان میں قیام الیل کرنے والوں کے لیے قہوہ ارسال فرماتے تھے۔ بچے تعلیم حاصل کرتے وقت جب واپس گھروں کو جاتے تھے تو ان کی کاپیاں وغیرہ دیکھ کر انعام دیا کرتے تھے۔