کتاب: عبدالعزیزبن عبدالرحمٰن آل سعود بانی مملکت سعودی عرب - صفحہ 266
علوم کے دلدادہ تھے۔ وہ ترقی کے تمام وسائل جو مفید ہوں ان کےقائل تھے۔ بری چیزوں کو از خود ترک کر دیتے تھے۔ میرے والد ہمیشہ عرب ملکوں کے اتحاد اور اتفاق کے لیے پر امید رہتے۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ عرب لیگ وہی پلیٹ فارم ہے جس پر جمع ہو کر عرب متحد ہو سکتے ہیں اپنے حقوق کا دفاع کر سکتے ہیں اور اپنی مشکلات پر قابو پاسکتے ہیں۔ جہاں تک فلسطین کا مسئلہ ہے۔ وہ عرب ملکوں کے سربراہوں سے متفق تھے۔ اور اس مقصد کو حاصل کرنا ان کی دلی آرزو تھی۔ ان کے خیال کے مطابق دیگر عرب ممالک کےمسائل جیسے الجزائر، تیونس، مراکش وغیرہ کا حل ضروری تھا تاکہ یہ ممالک اپنی آزادی و استقلال سے ہمکنار ہو سکیں۔ لیکن وہ سمجھتے تھے کہ یہ سب کچھ یکدم سے نہیں بلکہ مرحلہ وار ہونے چاہئیں یہ ان کی دلی تمنا تھی۔ (ماخوذ مجلۃ المصور 1948)