کتاب: عبدالعزیزبن عبدالرحمٰن آل سعود بانی مملکت سعودی عرب - صفحہ 265
آج سعودی عرب میں جو امن و امان ہے اور اس وسیع مملکت میں جرم برائے نام ہے یہ ان کی سیاسی حکمت عملی کی واضح مثال ہے لوگ اپنے مال و متاع اور جان کے لیے بے فکر ہیں۔ ان کی حکمت میں مجرموں سے سختی سے نبٹنا بھی شامل تھا۔ شاہ فیصل نے کہا ’’ میں بحیثیت ایک بیٹے کے بھی کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ میرے والد کو سعودی قوم کا ہر فرد والد کا درجہ دیتا ہے۔ ان کے ہاں انصاف کے لیے دوترازوں نہیں تھے۔ جو ایک سے وہ اپنے صاحبزادوں کو تولتے اور دوسرے سے قوم کو۔ وہ ہم میں اور قوم میں کوئی فرق نہیں کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ میرے بھائیوں میں سے ایک نے اسکول میں کسی لڑکے کو مارا تو والد نے اپنے بیٹے کو بلا کر اس کوسزا دی اور اپنے بیٹے کو اس لئے معاف نہیں کیا کہ وہ بادشاہ کا بیٹا تھا۔ اپنے بچوں اور پوتوں کے لیے ان کی شفقت اور پیار کی کوئی حد نہیں تہی وہ ہر وقت ان سے پیار کرتے تھے۔ وہ چاہتے تھے ہر روز ان کو دیکھیں خاص کر بچوں کو۔ ہر روز مغرب کے بعد و ہ خاندان والوں سے ملتے تھے۔ اور ہر ایک سے ہنسی مذاق اور گپ شپ لگاتے تھے۔ وہ بچوں کو تحفوں کے علاوہ ٹافیاں بھی دیتے تھے۔ والد کی ایک عادت یہ بھی تھی کہ جب کھانا کھا رہے ہوتے تو اس وقت بھی دلچسپ گفتگو کرتے تھے۔ جو لوگ ساتھ ہوتے ان سے بھی گفتگو کرتے جس میں کوئی تکلف نہ ہوتا۔ ماحول بہت دوستانہ ہوتا۔ ان کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ جدید