کتاب: عبدالعزیزبن عبدالرحمٰن آل سعود بانی مملکت سعودی عرب - صفحہ 264
پر کار توس کا گٹھا بند ھا ہوا تھا۔ جس سے چار کارتوس فائر ہو گئے۔ نتیجتًا‘‘ پیٹ میں کافی بڑا سوراخ ہو گیا۔ پیٹ کا سوراخ دیکھ کر انہوں نے فورا اس پر سر کا رومال لے کر باندھ لیا۔ اس دوران ان کے فوجیوں کے حوصلے پست ہو چکے تھے۔ اچانک دوبارہ میدان میں آکر انہوں نے پکارا ’’اے بھائیو اگر میں اکیلا بھی جنگ کے میدان میں رہ گیا تو بھی مقابلہ کروں گا۔ یا تو میں شہید ہو کر یہیں دفن ہو ں یا فتح حاصل کر لوں گا جو ساتھ رہنا چاہتا ہے وہ ہا ں کرے اور جو واپس جانا چاہے وہ جا سکتا ہے مجھے افسوس نہیں ہو گا۔ ‘‘ فوجیوں نے ایک آواز ہو کر جواب دیا ’’اے عبدالعزیز ہم شہادت تک آپ کے ہمراہ ہوں گے۔ ‘‘ آخر کار ان کو فتح حاصل ہوئی۔ ان کی تیسری خوبی ان کی حکمت تھی جس سے انہوں نے نظم و نسق کو انقلابی بنیادوں پر استوار کیا۔ وہ کسی مشکل کو پہلے امن سے حل کرنے کی کوشش کرتے اور دشمن سے بھی صلح کےلیے تیار ہوتے تھے۔ کھلے دل والے تھے نرمی اور مروت سے کام لیتے تھے۔ سختی اس وقت کرتے تھے جب امن کے تمام راستے بند ہو جاتے تھے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ جب سابق امام یمن اور شاہ کے اختلافات ہوئے تو انہوں نے سختی کے لیے جلدی نہ کی۔ وہ چاہتے تھے کہ اس اختلاف کا حل نرمی اور بردباری سے ہو۔ یہاں تک کہ ہم ان کے صاحبزادے اور اعلیٰ حکام ان کے اس رویہ کو کمزوری سے تعبیر کرنے لگے۔ انہوں نے اس کی پرواہ نہ کی۔ لہذا جب جنگ کا فیصلہ کیا تو انہیں برا کہنے والا کوئی نہ تھا آپ نے کہا کہ اب فیصلہ تلوار سے ہو گا۔ لیکن جب دوسرے عرب ممالک نے درمیان میں آکر صلح کرانی چاہی تو انہوں نے فوراً جنگ بند کر دی اور صلح کر لی۔