کتاب: عبدالعزیزبن عبدالرحمٰن آل سعود بانی مملکت سعودی عرب - صفحہ 250
عبدالعزیز کے نمائندے دوسری طرف۔
شاہ عبدالعزیز کو پتا تھا کہ یہ قلعے عقیر کے معاہدے کے خلاف ورزی ہیں۔ لیکن وہ اس کے خاتمہ کے لیے سفارتی سطح پر بات چیت کر رہے تھے۔ فیصل الدویش نے ملاقات اور بات چیت کا راستہ کا راستہ چھوڑ کر شاہ عبدالعزیز کی صلاحات پر غصے کا اظہار کرتے ہوئے عراقی سر زمین پر حملے شروع کر دئیے۔ یہ حقیقت میں اس دشمنی کاشاخسانہ تھا جو فیصل الدویش کے قبیلے اور عراقی قبائل میں تھی۔
فیصل الدویش نے 9 جمادی الاول 1346ھ میں شاہ عبدالعزیز کے مشورہ کے بغیر ایک دستہ البصیۃ نامی چوکی پر بھیجا۔ پھرپے درپے عراقی قبائل پر حملے شروع کر دئیے جس کےنتیجے میں ان کاکافی نقصان ہوا۔
دراصل وہ شاہ عبدالعزیز کے لیے مشکلات پیدا کرنا چاہتا تھا۔ فیصل الدویش نے اسی پر اکتفانہ کیابلکہ کویتی گاؤں پر بھی حملے شروع کر دئیے۔ عراق تو پہلے ہی اس کے حملوں کے زد میں تھا۔
چنانچہ انگریزوں نے جہازوں کے ذریعے ان کا پیچھا کرتے ہوئے کئی نجدی دیہاتوں پر بمباری بھی کی۔
شاہ عبدالعزیز نے ان باغیوں کی قیادت کو سمجھایا کہ وہ اپنے ان خطرناک سرگرمیوں کو بند کردیں۔ لیکن انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔
یہی وجہ تھی کہ 1929ء میں السبلۃ نامی لڑائی ان باغیوں کے خلاف لڑی گئی۔ اس میں فوج کی سربراہی خود شاہ عبدالعزیز نے کی۔ باغیوں کوشکست ہوئی اور فرار ہو گئے۔