کتاب: عبدالعزیزبن عبدالرحمٰن آل سعود بانی مملکت سعودی عرب - صفحہ 234
منیٰ میں قیام کے دوران ان کا معمول تھا۔ کہ وہ عید کےدوسرے دن محل میں بیٹھ جاتے تھے۔ محل کے دروازے کھلے رہتے۔ حجاج میں سے جو بھی ملنے کے لیے آتا اسے خوش آمدید کہتے تھے۔ اسی سال شاہ عبدالعزیز نے حجاج کے ایک جم عفیر سے خطاب کرتے ہوئے کہا۔ ’’ہم صرف ایک نظام چاہتے ہیں۔ اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ نظام۔ ہماری کوشش صرف اور صرف یہ ہے کہ اس سرزمین پر امن وامان ہو۔‘‘ خیر الدین الزرکلی اپنی کتاب ’’الوجیز ‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’شاہ عبدالعزیز نے حج اور حج کے راستوں کو پر امن بنانے کے لیے استطاعت سے زیادہ کوشش کی۔ جب انہوں نے جدہ کا محاصرہ کیا تو 1924۔ 1925ء انہوں نے اپنی فوجوں کو ہدایات جاری کیں کہ وہ لڑائی کے محاذ سے پیچھے ہٹ جائیں کیونکہ یہ حج کے دن ہیں۔ یہاں صرف ایک مختصر دستہ چھوڑا۔‘‘ اس سال ان کی کوشش یہ تھی کہ وہ حجاز کے شہروں جن میں میں ینبع اور قنفذہ شامل تھے قبضہ کرلیں تاکہ حجاج کو بحری راستےسے آنے میں آسانی ہو۔ حج اور اس کے انتظامی امور کے لیے انہوں نے خاص اہتمام کیا ان کی خواہش تھی کہ حج کا سفر روحانی ماحول میں ہو۔ اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انہوں نے 1365ھ میں ایک ادارہ قائم کیا۔ اس وقت اس دارے کے سربراہ شیخ عبداللہ السلیمان الحمدان تھے۔ اور اس کے نائب کے طور پر الشیخ محمد سرور الصبان کام کر رہے تھے۔ اس کے پہلے ڈائریکٹر شیخ محمد صالح قزاز تھے او ر جدہ میں