کتاب: عبدالعزیزبن عبدالرحمٰن آل سعود بانی مملکت سعودی عرب - صفحہ 218
’’شہزادہ‘‘’’ سلطان‘‘ اور پھر’’ بادشاہ‘‘ تک کا سفر شاہ عبدالعزیز بن امام عبدالرحمٰن، الفیصل آل سعود کا ابتدائی لقب شہزادہ تھا۔ جنہیں بعد میں رعایا کے لوگ سلطان کہہ کر پکارنے لگے۔ 1921ء میں حائل کے قبضے سے پہلے وہ شہزادہ ہی کہلاتے تھے۔ سلطان کا لقب شاہ عبدالعزیز کے نام کے ساتھ اس وقت لگا جب انہوں نے حجاز فتح کیا۔ اس وقت ان کو خیال بھی نہ تھا کہ وہ اپنے لیے سلطان کی بجائے بادشاہ کا لقب اختیار کریں گے۔ وہ مطلق العنانی حکمران کے خلاف تھے۔ خاص کر اس نام کی نسبت سے۔ کیونکہ ان کے ہاں ظاہری نمائش، نام و نمود، القاب اور رعب و دبدبہ کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ بلکہ ان کی خواہش صرف یہ تھی کہ ان کا ملک ترقی کے راستے پر گامزن ہو۔ اس میں وحدت ہو اور انصاف کا بول بالا ہو۔ اسلام کی وہی شان و شوکت دوبارہ لوٹ آئے جو اس کے صدر اول میں تھی۔ ایک دن انہوں نے حجاز میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا ’’ہم نے امن عام کیا، انصاف کو پھیلایا۔ عالم اسلام کو چاہیے کہ ہمارے ماضی کے کارناموں پر نظر رکھے جن کی مدد سے ہم مستقبل کو سنوارنا چاہتے ہیں۔‘‘ یہ ان کے خلوص نیت کا نتیجہ تھا کہ حجازیوں کو جو محبت ان سے ملی اس کا اظہار وہ کرنے لگے۔ وہ ان کی مشکلات کو دیکھتے تھے۔ ملک کے لیے وہ اچھے جذبات رکھتے تھے لہذا حجازی بھی ان سے اسی طرح پیش آتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ان کو حجاز پر بادشاہ تسلیم کرلیا۔