کتاب: عبدالعزیزبن عبدالرحمٰن آل سعود بانی مملکت سعودی عرب - صفحہ 216
تھے۔ اور کوئی اہم کام یا فیصلہ بغیر ان کے مشورہ اور اجازت کے نہیں کرتے تھے۔ کوئی اہم پیغام یا خط آجاتا۔ تو والد کی خدمت میں فوراً روانہ کرتے تاکہ والد کو پتا چل جائے یا ان کی رائے اس بارے میں ان کو معلوم ہو جائے۔فلبی جو ایک انگریز سیاح تھا اس نے شاہ عبدالعزیز کی زندگی پر بہت سی کتابیں لکھی ہیں اس نے شاہ عبدالعزیز کو پہلی بار دیکھنے کےبعد اپنے تاثرات یوں بیان کئے ہیں۔ ’’میں 1915ء میں ریاض آیا۔ میرے ساتھ ایک کرنل اور ایک سیاہی بھی تھے۔ ہم سب عربی لباس پہنے ہوئے تھے۔ ہمارا استقبال ابراہیم بن جمیعہ نے کیا جو ہمیں محل کے اندر لے گیا اور اس کمرہ میں ایک بہت ہی کمزور اور ضعیف شخصیت کے پاس بٹھا دیا۔ اس بزرگ کی عمر تقریبا ستر برس ہو گی۔ ہماری ان سے سلام و دعا ہوئی۔ انہوں نے ہمیں بیٹھے کے لیے کہا۔ قہوہ کا دور چلا۔ قہوہ نوشی کے دوران وہ ہم سے بات چیت کرتے رہے۔‘‘ فلبی مزید لکھتا ہے ’’ میں دل میں سوچ رہا تھا کہ ابن سعود کہاں ہے اتنے میں جس شخص سے ہم باتیں کر رہے تھے وہ اٹھا اور کہا میں آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ اب آپ میرے بیٹے عبدالعزیز سے گفتگو گریں۔ اس مجلس کے ایک گوشے سے ایک قد آور شخص ہماری طرف آیا تو ہمیں معلوم ہوا کہ جزیرہ نمائے عرب کا سردار یہی ہے۔ لیکن والد کی موجودگی میں اس طرح خاموش بیٹھے تھے کہ ان کی موجودگی کا احساس تک نہ ہوا۔ 1928ء کا واقعہ ہے کہ شاہ عبدالعزیز ریاض سے حجاز کے لیے روانہ ہونے