کتاب: عبدالعزیزبن عبدالرحمٰن آل سعود بانی مملکت سعودی عرب - صفحہ 196
اجتماعات ہوتے رہے۔ بات چیت بھی جاری رہی۔ لیکن کچھ نتیجہ نہ نکلا۔ اس سے قبل خطوط کا تبادلہ ہوا۔ شاہ عبدالعزیز کے خلبی، امین الریحانی اور طالب النقیب کے ساتھ خصوصی تعلقات تھے۔ یہ تینوں صلح کے لیے بات چیت کر رہے تھے لیکن شاہ عبدالعزیز کا اصرار تھا کہ علی بن حسین حجاز نکل جائے۔ شاہ عبدالعزیز کو اس وقت بہت غصہ آیا جب علی بن حسین کے ہوائی جہازوں نے سعودی افواج پر پرواز کی اور پمفلٹ گرائے۔ اس وقت شاہ عبدالعزیز واپس مکہ مکرمہ چلے گئے۔ اور فوجوں کی کمان اپنے بھائی محمد بن عبدالرحمٰن کو سونپ دی۔ سعودی افواج اس وقت جدہ میں تھیں۔ وہاں ان کی مدت قیام کوئی چالیس دن کے قریب تھی۔
حقیقت یہ ہے۔ کہ شاہ عبدالعزیز امن پسند تھے۔ خون خرابے سے نفرت کرتے تھے۔ سعودی افواج کے کمانڈروں نے خواہش ظاہر کی تھی کہ انہیں حملہ کرنے کی اجازت دی جائے کیونکہ طاقت کے بل بوتے پر وہ جدہ پر قبضہ کر سکتے تھے لیکن وہ تو محاصرہ بھی ہٹا لینا چاہتے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ علی بن حسین خود ہتھیار ڈال دے۔
جدہ میں سعودی افواج روز مرہ کی مشقیں کرتی تھیں۔ اور شہزادہ محمد ہر روز گھوڑ سواروں کا دستہ جدہ کے آس پاس بھیجا کرتے تھے تاکہ ان کو شریف کے فوجیوں کی نقل و حرکت کا اندازہ ہو سکے۔ انہیں یہ بھی انداز ہ کرنا ہوتا تھا کہ ان میں لڑنے کی کتنی سکت باقی ہے جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ شریف مکہ علی بن حسین صلح نہیں چاہتا تھا۔ اس نے فلسطین،مصر،یمن،شام،لبنان،سے کرائے کے فوجی منگوا لیے تھے۔ اس وقت اس کی افواج کی تعداد تین ہزار سے زائد تھی۔پانچ