کتاب: عبدالعزیزبن عبدالرحمٰن آل سعود بانی مملکت سعودی عرب - صفحہ 166
وہ خود بھی ہدی کی طرف بھاگا۔ اشراف کے باقی لوگ بھی طائف سے نکل کر ہدی کی طرف چلے گئے۔ اور سعودی افواج اتوار کی صبح 10صفر 1343ھ بمطابق 10 ستمبر 1924ء باب عباس سے طائف میں داخل ہو گئیں۔ پہلا کام جو سعودی افواج نے طائف میں کیا وہ مسجد ابن عباس میں ظہر کی نماز کی باجماعت ادائیگی تھی۔ اس کے بعد منادی کرا دی گئی کہ جو امن سے رہے گا اس کو امن و امان دے دی جائے گی اور جو نافرمانی کر ے گا اور لڑائی کرے گا اسے قتل کیا جائے گا۔ مغرب تک تقریبا تمام گاؤں والوں نے ہتھیار ڈال کر سعودی افواج کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ اس دوران میں علی بن شریف مکہ حسین نے اپنے والد کےمحل کو جو ہدیٰ میں تھا اپنا مرکز بنا لیا۔ اس نے قبائلی لوگوں کو جمع کرنا شروع کیا کیونکہ وہ دوبارہ سعودی افواج سے لڑنا چاہتا تھا۔ لیکن اس کی بد قسمتی تھی کہ امیر طائف اوروزیر دفاع اور اشراف کے دیگر لوگ اسے چھوڑ کر بھاگ گئے۔ انہوں نے کہا ’’ اب اخوان نے طائف پر قبضہ کر لیا ہے اور وہاں انہی کی حکومت ہے۔‘‘ ان لوگوں نے بھی وہاں سے راہ فرار اختیار کی اور ہدیٰ کو چھوڑ کر وادی نعمان تک پہنچ گئے جب علی کے والد شریف مکہ کو پتا چلا تو اس نے پیغام بھیجا اور اپنے بیٹے پر ناراض ہوا۔ اسے حکم دیا کہ واپس ہدیٰ چلا جائے اور وہاں سعودی افواج کے خلاف دفاع کرے۔ وہ واپس آیا اور دوبارہ فوجیوں کو اکٹھا کر کے لالچ کی رسی میں باندھ دیا کہ کامیابی کی صورت میں شریف مکہ ان کو انعامات دے گا۔ یوں کس طرح اس کے