کتاب: عبدالعزیزبن عبدالرحمٰن آل سعود بانی مملکت سعودی عرب - صفحہ 152
لیا جائے۔ یہ عام فیس کےعلاوہ ہوتا تھا۔ تاریخ میں ہے کہ ایک دفعہ ایک معلم شریف مکہ کے پاس آیا اور اس کو اطلاع دی کہ ’’اس کے پاس کچھ حجاج آئے ہیں۔ جن کی استطاعت نہیں ہے کہ وہ نصف لیرہ سونا دے سکیں۔ اس نے کہا ’’ٹھیک ہے۔ کوئی بات نہیں۔‘‘ معلم بڑا خوش ہو کر واپس گیا۔ اس معلم کو دوبارہ بلایا گیا اور حکم دیا گیا کہ وہ اپنی طرف سے ہر حاجی کا نصف لیرہ ادا کرے۔‘‘ اس وقت مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ تک اونٹ کا کرایہ 15 لیرہ سونےکے برابر ہوتا تھا۔ لیکن شریف مکہ کے ایجنٹ حجاج سے اس طرح کر ایہ وصول کرتے تھے کہ اونٹ والے کو 5لیرہ اور باقی دس لیرہ اس کی مرضی پر تھے۔ پانی کی راشن بندی تھی۔ بہت کم مقدار میں پانی تقسیم کیا جاتا تھا اور اس کی قیمت بہت زیادہ لی جاتی تھی۔ حجاج اس قیمت پر قربانی خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے اور پیاس کی وجہ سے ان میں سے اکثر وفات پا جاتے تھے۔ یہ تو اقتصادی حالت کا ایک مختصر نمونہ تھا جو شاہ عبدالعزیز کی حجاز میں آمد سے قبل تھا۔ لیکن امن و امان کی حالت اقتصادی حالت سے بھی بدتر تھی۔ شہروں میں قتل اور زیادتی کے واقعات عام تھے۔ شہریوں میں مار دھاڑ پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں تھا۔ سرکاری اہل کاروں میں رشوت عام تھی۔ محیی الدین رضا اپنی کتاب ’’صورو مشاہدات من الحجاز ‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’شریف مکہ حسین بن علی کی حکومت حجاز میں بد ترین حکومت تھی امن و امان کا نام و نشان نہ تھا۔ انہوں نے مثالیں دی ہیں کہ بعض مصری قافلوں کے ساتھ کیا ہوا۔ ان کے مال کی چوری کی گئی تو انہوں نے شریف مکہ سے شکایت کی۔