کتاب: عبدالعزیزبن عبدالرحمٰن آل سعود بانی مملکت سعودی عرب - صفحہ 137
حکومت کی تسلط کو تسلیم کیا گیا تھا۔ اگرچہ یہ صرف نام کے لحاظ سے تسلط تھا۔ اس معاہدے کی رو سے شہزادہ سعد رہا ہو کر واپس آگیا۔
امیر خالد بن منصور نے شاہ عبدالعزیز کے ساتھ یہ بھی معاہدہ کیا کہ اگر کبھی بھی شریف مکہ نے ان پر حملہ کیا تو وہ شاہ عبدالعزیز کا ساتھ دے گا جیسا کہ اس کے آباؤ اجداد ابن سعود کے آباؤ اجداد کے ساتھ کرتے رہے تھے۔
1917ء میں شریف مکہ کی فوجوں نے خرمہ پر حملہ کر دیا جو حجاز اور نجد کے درمیان واقع ہے۔ یہ ایک اہم علاقہ تھا جہاں عتیبہ قبائل آباد تھے۔ اور شاہ عبدالعزیز کے حامی تھے۔ ان قبائل نے شاہ عبدالعزیز سے مدد طلب کی۔ شاہ نے وعدہ کیا کہ وہ فوری طورپر مدد کے لیے آرہے ہیں۔ شاہ نے اس دوران شریف مکہ کو خط بھیجا ’’اس طرح کے حملوں کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔ آئندہ خیال رکھیں۔‘‘ شریف مکہ نے ان کو جواب دیا۔ ’’شریف مکہ اور اس کے صاحبزادے، ہمیشہ سے ایک اچھے پڑوسی کے طور پر شاہ عبدالعزیز کی قدر کرتے ہیں اور ان کے ساتھ امن سے رہنا چاہتے ہیں۔‘‘
1919ء میں شریف مکہ کے صاحبزادے عبداللہ بن حسین نے مدینہ منورہ سے ترکوں کو نکالنے کے بعد عرب دنیا کے سربراہوں کو خطوط ارسال کئے۔ اور ایک خط شاہ عبدالعزیز کو بھی روانہ کیا جس میں ان کو اطلاع دی گئی تھی۔ کہ ’’ابن حسین نے مدینہ منورۃ پر قبضہ کر لیا ہے۔ اور ترکی کمانڈر فخری پاشا کو گرفتار کر لیا گیا ہے‘‘(یہ وہ وقت تھا جب شریف مکہ ترکوں کے اثر سے آزاد ہو کر انگریزوں کی حمایت کرنے لگا تھا)فخری پاشا کی گرفتاری کے بعد ہلکا اور بھاری اسلحہ بھی قبضہ میں لے لیا