کتاب: عبدالعزیزبن عبدالرحمٰن آل سعود بانی مملکت سعودی عرب - صفحہ 136
1910ء میں جب شریف مکہ قویعیتہ نامی علاقہ میں داخل ہوا اسی دوران شہزادہ سعد اس علاقہ کے طرف جا رہے تھے۔ جب قویعیتہ کے قریب پہنچے تو چند عتیبی افراد باہر نکلے۔ انہوں نے شہزادہ سعد کو دیکھا تو پہچان لیا اور لالچ کے باعث ان کو گرفتار کر کے شریف مکہ کے پاس لے گئے۔ ان کو قیدی ظاہر کیا گیا۔ جب شاہ عبدالعزیز کو اطلاع ملی کہ شہزادہ سعد کو قیدی بنا لیا گیا ہے۔ تو انہوں نے فوری طور پر جنگ کی تیاری شروع کر دی تاکہ عتیبی قبیلہ کو سبق سکھایا جائے جنہوں نے ان کے بھائی کو گرفتار کرایا ہے۔
امیر خرمہ خالد بن منصور بن لوئی جس نے شریف مکہ اور شاہ عبدالعزیز کے درمیان صلح کرانے کا کر دار انجام دیا تھا اور جو خود بھی اشراف حجاز میں سے تھا، آل سعود کا پیرو کار تھا۔ اس نے شاہ عبدالعزیز کو اطلاع دی کہ شریف مکہ جنگ نہیں چاہتا لیکن اپنی شرائط پر صلح چاہتا ہے تاکہ وہ عثمانی حکومت کے سامنے سرخرو ہو سکے۔ انہوں نے شاہ عبدالعزیز کو مطمئن کر دیا۔
خالد بن منصور نے اس موقعہ پر کہا ’’شریف مکہ چاہتے ہیں کہ وہ ترکوں کے ہاں اپنے لیے جگہ بنا سکیں۔ سو شاہ عبدالعزیز کسی ایسی دستاویز پر دستخط کر دیں جو شریف مکہ کے لئے ترکوں کے سامنے فائدہ مند ہو اور شاہ کو کسی قسم کا نقصان بھی نہ ہو۔‘‘ اس نے یہ وعدہ بھی کيا کہ اس دستاویز پر دستخط کے ساتھ وہ شہزادہ سعد کو واپس لے آئے گا۔
شاہ عبدالعزیز نے اس دستاویز پر دستخط ثبت کر دئیے اس دستاویز میں تھا کہ شاہ عبدالعزیز عثمانی حکومت کو سالانہ 6000 مجیدی دیا کریں گے۔ نیز قصیم پر ترکی