کتاب: عبدالعزیزبن عبدالرحمٰن آل سعود بانی مملکت سعودی عرب - صفحہ 135
طور پر شاہ عبدالعزیز کے آباؤ اجداد کے زیر اثر رہ چکی تھیں۔ جہاں تک آل رشید کے ساتھ لڑائی کا تعلق ہے۔ وہ قدیم زمانے سے چلی آرہی تھی۔ لیکن شریف مکہ کو عثمانی حکومت نے 1908ء میں مکہ مکرمہ کا حکمران بنایا تھا۔ اس سال شاہ عبدالعزیز قصیم میں تھے۔ جب ان کو یہ اطلاع ملی کہ ترکوں نے شریف حسین کو مکہ مکرمہ پر حکمران مقرر کیا ہے تو انہوں نے اس تقرر پر کسی خاص رد عمل کا اظہار نہ کیا اور نہ اسے کوئی اہمیت دی۔ لیکن شریف مکہ اپنی اس حیثیت کا برملا اظہار چاہتا تھا اس کے دل میں جزیرہ نمائے عرب کا بادشاہ بننے کی بڑی چاہ تھی۔ وہ اس خطے کے ہر امیر کو مطیع کرنا چاہتا تھا۔ وہ شاہ عبدالعزیز کو سب سے بڑا خطرہ تصور کرتا تھا۔ اسی لیے وہ ہر قسم کی سازش میں پیش پیش تھا۔ خواہ عرائف کے ذریعے سے ہو یا براہ راست ہو(عرائف آل سعود کے ان افراد کو کہتے ہیں جو ان سے ناراض تھے اور ان کو شریف مکہ نے اپنے ہاں پناہ دے رکھی تھی۔) شاہ عبدالعزیز نے اپنے چھوٹے بھائی سعد بن عبدالرحمن کو جن کی عمر اس وقت 17 سال تھی عتیبہ قبائل کے پاس بھیجا تاکہ عرائف کے خلاف ان کی مدد حاصل کر سکیں۔ شہزادہ سعد سے شاہ عبدلعزیز بہت محبت کرتے تھے۔ راستے میں نجد اور حجاز کا علاقہ پڑتا تھا۔ اس میں عتیبی قبیلہ کے افراد آباد تھے۔ جو شاہ عبدالعزیز کی حمایت کرتے تھے۔ یہ بڑا اہم علاقہ تھا۔ اقتصادی لحاظ سے بھی اور تجارتی سطح پر بھی۔ یہاں سے تجارتی قافلے گزر تے تھے اوروسطی جزیرہ نمائے عرب کو بحر احمر کی بند گاہ سے ملاتا تھا۔ یہ علاقے اتنے اہم تھے کہ انہں ححاز کی کنجی کہا جاتا تھا۔