کتاب: عبدالعزیزبن عبدالرحمٰن آل سعود بانی مملکت سعودی عرب - صفحہ 134
شاہ عبدالعزیز اور الشریف کی فوجوں کا آمنا سامنا خیر الدین الزر کلی اپنی کتاب شبہ الجزیرہ صفحہ 30 پر لکھتے ہیں۔ ’’شاہ عبدالعزیز سے متعلق ایسا کوئی واقعہ نہیں ہے جس سے یہ معلوم ہو کہ انہوں نے کسی انسان کے ساتھ دشمنی کی ہو۔‘‘ یہ ٹھیک ہے کہ انہوں نے بہت سی لڑائیاں لڑیں لیکن آپ قتل و غارت کو پسند نہیں کرتے تھے۔ وہ دلی طور پر چاہتے تھے کہ گفت و شنید اور صلح و صفائی کے ذریعہ مسائل حل ہو جائیں لیکن جب انہیں مجبور کیا جاتا تو وہ گھوڑے پر سوار نظر آتے۔‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں۔ آل رشید سے ان کی لڑائی اس لیے تھی کہ اس نے ان کے اور ان کے اسلاف کے تخت پر قبضہ کر رکھا تھا۔ ترکوں سے ان کی لڑائی اس لیے تھی کہ انہوں نے بھی ان کے ملک کے بعض حصوں پر ناجائز قبضہ کیا ہوا تھا اور آل رشید کی مدد کرتے تھے۔ جزیرہ نمائے عرب کے دوسرے امارات سے ان کی لڑائی بھی ان ہی وجوہات کی بنا پر تھی۔ جس کے وہ ذمہ دار نہ تھے ‘‘ جب جنگ عظیم اول ختم ہوئی تو وہ علاقہ جو ان کے زیر نگین تھا اس میں نجد، القصیم، الاحساء شامل تھے۔ لیکن دو علاقے اب بھی ان تسلط سے باہر تھے اور ان کے حریفوں کے قبضے میں تھے۔ اول حائل، جبل شمر اور اس سے ملحقہ علاقے جو آل رشید کے قبضے میں تھے۔ دوسرے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ نیز چند بندر گاہیں تھیں جو شریف مکہ حسین بن علی کے زیر تسلط تھیں۔ بندر گاہیں خاص