کتاب: عبدالعزیزبن عبدالرحمٰن آل سعود بانی مملکت سعودی عرب - صفحہ 124
اس نے مرنے سے قبل برطانوی حکومت کو جتنی بھی رپورٹیں ارسال کیں ان میں اس کی ذاتی آراء تھیں کیونکہ وہ جزیرہ نمائے عرب کی قیادت کے لیے شاہ عبدالعزیز کو موزوں ترین شخصیت تصور کرتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ا س نے اس جنگ میں حصہ لینے کا ارادہ کیا کیونکہ وہ دل سے شاہ عبدالعزیز کا احترام کرتا تھا۔ وہ اس جنگ کو اپنی جنگ تصور کر رہا تھا۔ افسوس یہ تھا کہ اس وقت جزیرہ نمائے عرب کے بارے میں معلومات کا انحصار دو ذرائع پر تھا۔ ایک وہ رپورٹ جو برطانوی سرکار کو عراق اور خلیج میں موجود ایجنٹوں سے ملتی تھی اور دوسری جو قاہرہ میں موجود مکتب عربی سے موصول ہوتی تھی قابل ذکر بات یہ تھی کہ ان دونوں رپورٹوں میں یکسانیت نہیں ہوتی تھی۔ اگر پہلی عالمی جنگ کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس جنگ میں ابن رشید اور یمن کے امام یحیی، عثمانی حکومت کی حمایت کر رہے تھے۔ اور شریف مکہ،عسیر کے الادریسی، اور امیر کویت برطانیہ کی حمایت کر رہے تھے۔ جہاں تک نجد کا تعلق تھا۔ وہ اس جنگ میں غیر جانبدار کا کردار ادا کر رہا تھا۔ امین الریحانی اس وقت کے سیاسی حالات کے بارے میں اپنی کتاب،نجدو ملحقاتہ صفحہ 229 پر لکھتے ہیں۔ ’’جب عثمانی حکومت وسطیٰ یورپ کے ملکوں کے ساتھ جنگ عظیم اول میں شامل ہو گئی۔ تو انگریز نے عرب سربراہوں سے بات چیت شروع کی تاکہ ان کو جنگ میں شامل کیا جاسکے۔‘‘ انہوں نے لکھا ہے ’’محمد الادریسی نے سب سے پہلے اس عوت پر لبیک کہا اور اپریل 1916ء میں انگریز کا حلیف بن گیا۔ عسیر ترکی کے