کتاب: عبدالعزیزبن عبدالرحمٰن آل سعود بانی مملکت سعودی عرب - صفحہ 123
مجاہدین موجود تھے اور دوسری طرف ابن رشید کو عثمانی حکومت کی مدد حاصل تھی وہ ان سے انتقام لینا چاہتا تھا۔ اس سے قبل اپنی رپورٹوں میں شکسپیئر نے شاہ عبدالعزیز کی قیادت کی تعریف کی تھی۔ مستقبل میں جزیرہ نمائے عرب میں اس کو شاہ عبدالعزیز ایک عظیم قائد نظر آرہے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ جب جراب کی لڑائی میں ابن رشید اور شاہ عبدالعزیز کی فوجیں آمنے سامنے ہوئیں تو شکسپیئر نے شاہ سے درخواست کی کہ اسے بھی ان کی فوج کی طرف سے لڑنے کی اجازت دی جائے۔ شاہ نے اسے نرمی سے سمجھایا۔ ’’ ہمارے مہمانوں کو چاہیے کہ وہ ہمارے تکالیف کو ملحوظ رکھیں ‘‘ لیکن اس نے دوبارہ التجا کی تو شاہ عبدالعزیز نے اسے بدوی لڑائیوں کے خطرات سے آگاہ کر دیا۔ اس کی دلچسپی میں اور بھی اضافہ ہوا۔ اور وہ زیادہ دلچسپی لینے لگا۔ خیر الدین الزر کلی نے الوجیز صفحہ 70 میں لکھا ہے۔ ’’معلوم ہوتا ہے کہ شکسپیئر نے جب یہ دیکھا کہ ترکی اور جرمنی ایک دوسرے کے حلیف ہیں اور ابن رشید کو اسلحہ بھیجتے ہیں تو وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ شاہ عبدالعزیز کی جنگ ترک اثر و نفوذ کے خلاف ہے بلکہ اس نے اسے جرمن اثر و نفوذ کے خلاف تصور کیا۔ اس نے جراب کی لڑائی میں حصہ لینے کا پختہ ارادہ کر لیا کیونکہ اس طرح شاہ عبدالعزیز کےدل میں اس کا احترام بڑھ جائے گا۔ لیکن افسوس کہ اپنے اس خوبصورت خواب کی تعبیر حاصل نہ کر سکا۔ اس کا وہ رومال جو اس نے سر پر باندھا تھا لڑائی کے آغاز میں ہی رشید ی فوج کا ہدف بنا اور وہ زخمی ہو کر انتقال کر گیا۔