کتاب: عبدالعزیزبن عبدالرحمٰن آل سعود بانی مملکت سعودی عرب - صفحہ 118
کیونکہ یہ وہ علاقہ تھا جہاں دنیا کا سب سے بڑاتیل کا خیرہ تھا۔ لیکن جس وقت شاہ عبدالعزیز نے الاحساء کو اپنے زیر تسلط لانا چاہا اس وقت اس ذخیرہ کے بارے میں کسی کو کوئی علم نہ تھا۔ بس شاہ کے سامنے اپنے بزرگوں کی عزت کا مسئلہ تھا کہ یہ ان کے اجداد کی سرزمین ہے۔ الاحساء پر قبضہ کرنا ایک طرح عثمانی حکومت کو کھلا چیلنج تھا دوسری طرف شاہ عبدالعزیز نے برطانوی حکومت کو بھی حیران کر دیا کہ انہوں نے اپنے علاقے سے اتنی بڑی فوج کو شکست دے کر خالی کرالیا۔ انگریزوں کی نظر میں انہوں نے حقیقتا ً یہ ایک کارنامہ انجام دیا تھا۔ کیونکہ ان تمام کاروائیوں میں باہر کی کسی قوت کا کوئی تعاون شامل نہیں تھا۔ شاہ عبدالعزیز بھی یہی چاہتے تھے کہ الاحساء پر قبضہ کرنے کی کاروائی سو فیصد سعودی افواج کریں اور باہر کا کوئی تعاون شامل نہ ہو۔‘‘ عبدالعزیز نوار اپنی کتاب "تاریخ العرب المعاصر" صفحہ 55 پر لکھتے ہیں۔ ’’شاہ عبدالعزیز نے جب اس علاقہ پر دوبارہ اپنا تسلط قائم کرنے کا ارادہ کیا تو اتحادی فوجوں اور برطانیہ کے درمیان بات چیت شروع تھی کہ جزیرہ نمائے عرب کے مشرقی علاقوں میں کس کا تسلط ہو۔ یہی وہ سبب تھا جس کی وجہ سے شاہ عبدالعزیز نے سرعت سے اپنے پروگرام کو عملی جامہ پہنایا تاکہ وہ الاحساء اور القطیف میں داخل ہو جائیں اور ان پر قبضہ کر لیں۔ ترک فوج جب الاحساء سے نکل کر بحرین پہنچی تو انہوں نے عقیر بندر گاہ کو اپنی تسلط میں لینے کیلئے سعودیوں پر دوبارہ حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔