کتاب: عبدالعزیزبن عبدالرحمٰن آل سعود بانی مملکت سعودی عرب - صفحہ 115
رہی تھی۔ ترک کمانڈر ان کو چیخ چیخ کر جگا رہا تھا۔ اس دوران بگل بجایا گیا۔ تب کہیں جا کر ترک فوج نیند سے بیدار ہوئی۔ وہ بغیر کسی نشانہ کے توپوں سے گولے داغنے لگے۔ اس دوران شاہ عبدالعزیز کے جان نثار کوت قلعہ میں داخل ہو کر قبضہ کر چکے تھے۔ اسوقت صرف ابراہیم پیلس قلعہ کے اندر تھا۔ اس وقت تک الاحساء کے لوگ بھی توپوں کی گھن گرج سے جاگ اٹھے تھے۔ فجر کی نماز کا وقت ہو چکا تھا۔ قلعہ کے برجوں سے نعرے لگے کہ ملک اللہ تعالیٰ کا ہے پھر عبدالعزیز بن عبدالرحمن الفیصل آل سعود کا ہے فجر کی نماز کے بعدالاحساء والوں نے کوت نامی قلعہ میں آکر شاہ عبدالعزیز کی بیعت کی۔ شاہ عبدالعزیز نے ابراہیم الملاکو ترک کمانڈر کے پاس بھیجا۔ اور کہلوایا کہ اس کے پاس دو راستے ہیں۔ یا تو ہتھیار ڈال دے اور زندہ الاحساء سے عقیر بندر گاہ نکل جائے۔ یاپھر مقابلے کے لئے تیار ہو جائے کیوں کہ دوسری صورت میں ہم حملہ کردیں گے اور اس وقت تک لڑیں گے جب تک اللہ تعالیٰ ہمارے درمیان فیصلہ نہ کر دے۔ شیخ الملا جب وہاں پہنچے تو ترک کمانڈر نے ان سے پوچھا ’’ اس سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے۔‘‘ شیخ الملا نے جواب دیا ’’ آپ کے لیے یہی بہتر ہے کہ آپ ہتھیار ڈال دیں اور امن و امان کے ساتھ یہاں سے نکل جائیں۔ ‘‘ ترک کمانڈر خاموشی سے باہر نکلا اور اپنے 1800 سپاہیوں کو شاہ عبدالعزیز کے