کتاب: بیعت سقیفہ بنی ساعدہ نئے مؤرخین کی تحریروں میں - صفحہ 64
پڑھا کرتا تھا جن کے نام اسلامی تھے۔جس کے بعد مجھے مستشرقین کے افکار و آراء کے متعلق یقین کامل ہوگیا کہ کوئی بھی رائے جسے وہ پیش کرتے ہیں ‘ یا کوئی بھی نظریہ جسے وہ سامنے رکھتے ہیں ؛ مستشرقین کی کتابوں میں اس کی کوئی نہ کوئی اصل موجود ہوتی ہے۔ ‘‘[1] اس لیے یہ بات ان لوگوں سے کوئی بعید نہیں لگتی کہ یہ اسلامی تاریخ کے چہرہ کو مسخ کرنے کے لیے کوئی بھی کام کر گزریں ۔ اس وجہ سے ضروری ہوتا ہے کہ ان لوگوں کی روایات پر اعتماد نہ کیا جائے‘ خصوصاً جب یہ لوگ خیر القرون کے لوگوں کے بارے میں گفتگوکریں ؛ اورخاص کرعصر نبوت اور خلافت راشدہ کے متعلق [ان کی باتیں بالکل ناقابل اعتماد ہوتی ہیں ]۔ مستشرقین اور ان کے پیچھے چلنے والے عرب او رمسلمان مؤرخین کی آراء پیش کرتے ہوئے یہ نتائج میرے سامنے آئے: ۱: مستشرقین کے کئی ایک گروہ ہیں ۔ ان میں سے اکثریت پر جہالت کا غلبہ ہوتا ہے۔ان کے نتائج اوہام پرمبنی ہوتے ہیں ۔اگرہم ان کے متعلق زیادہ حسن ظن بھی رکھیں تو یہی کہہ سکتے ہیں کہ ان کے نتائج و آراء ان روایات پر مبنی ہوتی ہیں جو کہ اصل میں صحیح نہیں ہیں ۔انہیں مسلمانوں کے روایات سے استدلال کرنے اور احادیث کے قبول کرنے کے طریقہ کے متعلق کچھ بھی علم
[1] المستشرقون و الإسلام ص ۴-۵۔