کتاب: بیعت سقیفہ بنی ساعدہ نئے مؤرخین کی تحریروں میں - صفحہ 56
جب کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ خلافت کے بارے میں فرمایا کرتے تھے : ’’ میں چاہتا تھا کہ میں اس معاملہ سے اس طرح نکل جاتا کہ نہ اس کا بوجھ مجھ پر ہوتا اور نہ ہی مجھ پرکوئی ذمہ داری ہوتی اور نہ ہی جواب دہی ۔‘‘[1] مزید جس چیز سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بار خلافت سے نا پسندیدگی ظاہر ہوتی ہے وہ اس ذمہ داری کا شعور اور آخرت کا خوف تھا۔آپ کی اس رائے میں اس وقت بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی جب آپ بستر مرگ پر تھے۔ جب زخمی ہوجانے کے بعد حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ آپ کے پاس تشریف لائے تو انہوں نے کہا: ’’ اے امیر المؤمنین ! آپ کو بشارت ہو۔اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعہ شہروں کے شہر فتح کئے۔ اور نفاق کا قلع قمعہ کیا۔اور رزق کو پھیلادیا۔‘‘ توحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ اے ابن عباس ! کیا تم امارت پر میری تعریف کررہے ہو؟ انہوں نے کہا: نہیں دوسری باتیں بھی تو ہیں ۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں چاہتا تھا کہ میں اس معاملہ سے ایسے نکل جاتا کہ مجھ پر نہ ہی اس کا کوئی بوجھ ہوتا اور نہ ہی کوئی ثواب۔ ‘‘[2] اور آپ ہی کا ایک قول یہ بھی ہے ؛ فرمایا کرتے تھے: ’’ اگر ایک فرات کے
[1] ابن سعد ‘ الطبقات الکبری ۳/۲۱۹۔ [2] أبو نعیم الاصفہاني ‘ حلیۃ الأولیاء ۱/۵۲۔