کتاب: بیعت سقیفہ بنی ساعدہ نئے مؤرخین کی تحریروں میں - صفحہ 53
سے چاہیں تعلق کو توڑ ڈالیں ۔ جس سے چاہیں صلح کریں اور جس سے چاہیں دشمنی کریں ۔ ہمارے اموال میں سے جو چیز مرضی چاہے لے لیں ۔ اور جو چیز آپ لے لیں گے وہ ہمیں اس چیز سے زیادہ محبوب ہوگی جسے آپ ہمارے لیے چھوڑ دیں گے ۔ اور جس چیز کے متعلق آپ ہمیں جو حکم دیں گے ؛ اس میں ہمارا حکم آپ کے حکم کے تابع ہوگا۔‘‘[1] صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا تو یہ حال تھا۔ محمدی تزکیہ و تعلیم اور تربیت کی وجہ سے وہ ایثار و جانثاری کے اس درجہ پر فائز تھے۔ اور محبت میں ان کا یہ مقام تھا۔ ان کے مابین محبت و اطاعت کا یہ عالم تھا۔ اور مسلمانوں کی جماعت کی شیرازہ بندی قائم رکھنے اور اللہ تعالیٰ کی حدود کو نافذ کرنے ؛اوراس کی راہ میں جہاد کرنے کے لیے ان کی یہ قربانیاں تھیں ۔ اس میں نہ ہی ان کی کوئی سیاسی غرض تھی اور نہ ہی جماعت بندی اور تفرقہ بازی نام کی کوئی چیز ان میں موجود تھی۔ یہ ساری باتیں مغرب او ران سے متاثر لوگوں کے اٹکل پچو ہیں ۔ [جن کی حقیقت میں کوئی اصل نہیں ]۔
[1] ابن کثیر البدایۃ والنہایۃ ۵/۷۴۔