کتاب: بیعت سقیفہ بنی ساعدہ نئے مؤرخین کی تحریروں میں - صفحہ 50
ابو عزیز نے کہا: اے میرے بھائی تم میرے متعلق یہی وصیت کرتے ہو؟ توحضرت مصعب رضی اللہ عنہ نے کہا : تم نہیں وہ میرا بھائی ہے ۔ ذرا اس نیک بخت بیٹے کا اپنے باپ کے متعلق مؤقف دیکھیں ؛ جب اس کے باپ کا نفاق کھل کر ظاہر ہوگیااور اس نے اہل ایمان کو تکلیف دی ۔ تو بیٹا عبداللہ بن عبد اللہ بن ابی ابن سلول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کرتا ہے : ’’ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ [میرے والد] عبد اللہ بن ابی کو قتل کرنا چاہتے ہیں ؟ اگر ایسا کرنا ہی ضروری ہے تو پھر اس کام کے لیے مجھے حکم دیجیے۔ میں اس کا سر کاٹ کر آپ کی خدمت میں پیش کر دوں گا۔اللہ کی قسم ! سارا خزرج جانتا ہے کہ مجھ سے بڑھ کر اپنے والد کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا کوئی نہیں ۔‘‘[1] اور ایسے ہی حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مابین جو واقعہ پیش آیا؛ یہ فتح مکہ سے پہلے کا واقعہ ہے۔حضرت عباس رضی اللہ عنہ ابو سفیان کو لیکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ابو سفیان کے پیچھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی آگئے اور عرض گزار ہوئے: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اس بات کی اجازت دیجیے میں اس کی گردن اڑا دوں ۔ تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے غصہ کے عالم میں کہا:
[1] السیرۃ لابن ہشام ۳/۲۹۳۔